کالم و مضامین

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں

سید لطیف ڈالمیا (سیکرٹری انفارمیشن ، پی پی پی یوایس اے )

ذوالفقارعلی بھٹو کے وہ کام جو انہوں نے اسلامی دنیا کے مفادات کے تحفظ کےلئے کئے۔یہی بات مغربی حکمرانوں کو بالکل پسند نہ آئی اور مغربی دنیا، بھٹو کی دشمن ہوگئی اور ایک ڈکٹیٹر ضیاالحق ،کے ذریعہ ایک عظیم سیاستداں کو پھانسی دے دی گئی۔
ذوالفقارعلی بھٹو تیسری دنیا کے کمزور طبقات کی ایک طاقت ورآواز تھے جسے عدالتی ناانصافی کے عوض موت ملی تو سہی، مگر مار نہ سکی۔
شب ایشیا کے اندھیرے میں سرِ راہ جس کی تھی روشنی
وہ گوہر کسی نے چھپا لیا، وہ دیا کسی نے بجھا دیا
شہید بھٹو کو چاراپریل کو شہید کیا گیا ۔ آج سے ٹھیک بیالیس سال قبل اسی تاریخ کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔بھٹو کی سیاسی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور پی پی پی کے قیام سے قبل فوجی حکمرانوں کے ساتھ کا ہے۔ دوسرا دور فوجی حکمرانوں سے بغاوت کے بعد پی پی پی کے قیام اور عوامی جہدوجہد کا ہے۔ تیسرا دور اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو کے کارناموں کا ہے، چوتھا اور آخری دور اقتدار سے جبری فراغت کے بعد زندگی کے آخری ایام اسیری میں گزانے کا ہے۔ اس تحریر میں ایک طائرانہ نگاہ بھٹو کے چاروں سیاسی ادوار پر ڈالی گئی ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹونے اپنے سیاسی سفر کا آغاز میجر جنرل اسکندر مرزا کی کابینہ میں ایک وزیر کی حیثیت سے کیا۔ اسکندر مرزا کی برطرفی کے بعد جب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بھٹو اسکندر مرزا کی کابینہ کے شاید واحد وزیر تھے جنہیں جنرل ایوب خان نے بھی بطور وزیر اپنی کابینہ میں شامل کیا۔
ایوب خان کے مارشل لاءدور میں بھٹو شہید، کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد آخرکار 1963 میں وزیر خارجہ کے عہدے پر فرائض انجام دئیے اور بحیثیت وزیر خارجہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بطور وزیر خارجہ بھٹو نے اعتماد، جذبے اور جوش کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں کشمیر سمیت کئی موضوعات پر تقاریر کیںجو آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کا درجہ رکھتی ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو اپنی تقریر کا آغاز کرتے تو سامعین پر ایک سحر طاری ہوجاتا۔ پوری دنیا کے سفارت کار ہمہ تن گوش ہوکر آپ کی بات سنتے۔ بھٹو کی انگلش زبان میں کی ہوئی تقاریر سفارتکاری اور ادب کا شاہکار تھیں۔ کیونکہ سندھی ہو یا انگلش، اچھا بولنے کے لیے علم کے ساتھ زبان پردسترس ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھٹو دنیا کی نامور درسگاہوں سے فارغ التصحیل تھے۔ جن میں یونیورسٹی آف ساردرن کیلیفورنیا، آکسفورڈ یونیورسٹی، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بھٹو کو عالمی سیاست، قانون، ادب اور انگلش زبان پر ملکہ حاصل تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو سب سے زیادہ پڑھے لکھے ،سربراہِ حکومت اور سربراہِ ریاست تھے۔ تعلیم کے ساتھ قدرت نے بھٹو کو فنِ تقریر کا تحفہ عطا کر رکھا تھا، جس نے بھٹو کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے۔
سال 1965 کی جنگ کے بعد، 1966 میں ایوب خان نے اعلانِ تاشقند پر ہندوستانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بعد بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ کیونکہ بھٹو چاہتے تھے کہ 1965 کی جنگ کے نتیجے میں کشمیر کا مسلئہ حل کیا جائے، مگر ایوب خان اس بات کے حامی نہ تھے۔ اور یوں اعلانِ تاشقند کے بعد بھٹوکا پہلا سیاسی دور ختم ہوا۔
اعلانِ تاشقند کے ٹھیک ایک سال بعد 1967 میں بھٹو نے پی پی پی کی لاہور میں بنیاد رکھی۔ اور یوں پی پی پی کے بطن سے ایک نئے بھٹو نے جنم لیا۔ ایک ایسا بھٹو جو آواز تھا غریب ہاری کی، کسان کی، محنت کش عوام کی، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور کی، اور ہراس شخص کی، جو زبان ہوتے ہوئے بھی بولنے سے قاصر تھا۔ پی پی پی کے قیام کے بعد بھٹو نے پاکستان کی سیاست کو اشرافیہ کے محلات سے نکال کر غریب کی جھونپڑیوں، سڑکوں اور چوراہوں میں لا کھڑا کیا۔ چند سال کے اندر اندر محض اپنی سیاسی بصیرت اور قابلیت کے بل بوتے پر عوامی حمایت حاصل کی اور 1970 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔
دسمبر 1971 میں جب حالات فوج کے بس سے باہر ہوگئے تو یحییٰ خان نے استعفیٰ دیتے ہوئے اقتدار بھٹو کے حوالے کردیا۔یحییٰ خان نے جب اقتدار چھوڑا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کا عہد ہ سنبھالا۔ اس طرح بھٹو کے سیاسی سفر کا تیسرا اور اہم ترین دور شروع ہوا۔ جب بھٹو نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ 1971 کی جنگ کے بعد نوے ہزار سے زائد پاکستانی فوجی ہندوستان کی جیلوں میں قید تھے اور پچاس ہزار مربع میل سے زائد پاکستانی رقبہ ہندوستان کے قبضہ میں تھا۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1972 میں ہندوستان کا دورہ کیا، اور میدان جنگ ہیں ہاری ہوئی بازی، مذاکرات کی میز پر بدل کر رکھ دی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشہورِ زمانہ شملہ کا معاہدہ ہوا۔ جس کے باعث پاکستان کو اپنی فوج اور ہندوستان کے قبضہ میں موجود رقبہ دونوں واپس مل گئے۔
اس معاہدے پر پاکستان کی جانب سے بھٹو اور ہندوستان کی جانب سے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے۔ شملہ معاہدہ کے بعد بھٹو کی شہرت پاکستان میں بلندیوں کو چھو رہی تھی اور وہ عوامی اجتماعات سے بھرپور خطابات کررہے تھے۔ اس واقعے کےا یک سال بعد 1973 میں پاکستان کو پہلا وفاقی پارلیمانی دستور دیا، جو بھٹو کا ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ تھا۔ اس دستور میں قادیانیوں کے بارے میں کئی دہائیوں پر محیط تنازعہ بھی ختم ہوا اور انہیں غیر مسلم اقلیت دستوری طور پر قرار دے دیا گیا۔ یہ بھٹو کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
دستور کے علاوہ پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور کھل کر اس کا دفاع بھی کیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھا۔ آج بھی پاکستان ان کی بنائی ہوئی خارجہ پالیسیوں کے اثرات سے فائدہ حاصل کررہا ہے۔ بھٹو کی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے چین اور روس جیسے ممالک پاکستان کے قریب آئے اور پاکستان مسلم امہ کی نگاہوں کا مرکز بھی بن گیا۔ تمام عالم اسلام کے سرکردہ رہنما بھٹو کو اپنا محسوس کرنے لگے۔ اسی دور میں عالمی اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس لاہور میں ہوا۔ اسی دور میں اسلامی بینک جیسے ادارے بنے اور او آئی سی جیسے فورم بھی۔ تاکہ مسلم دنیا کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ بات مغربی حکمرانوں کو بالکل پسند نہ آئی اور مغربی دنیا بھٹو کی دشمن ہوگئی۔
مارچ 1977 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر پی پی پی نے بھٹو کی قیادت میں کامیابی حاصل کرلی۔ مگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے نتائج مسترد کرتے ہوئے بھٹو کے خلاف تحریک شروع کردی۔ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بھٹو نے حزب اختلاف کی جماعتوں سے مذاکرات کیے اور دوبارہ انتخابات کے لیے تیار بھی ہوگئے۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاءلگاتے ہوئے بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔ بھٹو کو کابینہ سمیت نظر بند کردیا، اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ اور تین ماہ میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یوں بھٹو کی سیاسی زندگی کے تیسرے دور کا خاتمہ ہوا اور آغاز ہوا ایک عہد ساز شخصیت کے زوال کا۔
نظربندی ختم ہونے کے بعد بھٹو نے عوامی جلسے شروع کردیے اور عوام نے ایک بار پھر ان کا والہانہ خیر مقدم کیا۔ ضیاءالحق کو احساس ہوگیا کہ اگر انتخابات ہوئے تو بھٹو کو شکست دینا مشکل ہوگا۔ اسی دوران معروف وکیل احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ کھول دیا گیا۔ جس میں بھٹو نامزد ملزم تھے اور یوں پاکستا ن کی عدالتی تاریخ کے ایک متنازعہ ترین مقدمے کا آغاز ہوا۔ اسی مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کو پھانسی دی۔ جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کرلیا اور بھٹو کو 24 مارچ 1979 کے دن حتمی طور پر پھانسی کی سزا سنا دی گئی، جس پر عمل درآمد کی تاریخ 4 اپریل 1979 مقرر کی گئی۔ سزا پر عمل درآمد سے پہلے مسلم دنیا کے کئی نامور رہنماو¿ں نے ضیاء الحق سے رحم کی استدعا کی۔ مگر تمام کاوشیں بے کار ثابت ہوئیں۔ آخر 4 اپریل 1979 کی تاریخ آن پہنچی اور ایک عظیم رہنما اپنا سر بلند کیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
بھٹو کے سیاسی سفر کا چوتھا دور بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
چند باتیں اور: جس دور میں بھٹو کو عروج ملا، اسی دور میں کئی عالمی مشرقِ وسطیٰ، عرب دنیا، ایشیا، امریکا اور لاطینی امریکا کے سیاسی افق پر نمودار ہوئے۔ ان رہنماو¿ں میں لیبیا کے کرنل قذافی، سعودی عرب کے شاہ فیصل، فلسطین کے یاسر عرفات، متحدہ عرب امارات کے شیخ زید، چین کے وزیراعظم چواین لائی، انقلابِ چین کے سرخیل اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ماو¿زِے تنگ، جدید چین کے بانی ڈنگ ژاو¿ پنگ، کیوبا کے فیڈل کاسترو، ہندوستان کی نامور سیاسی رہنما اندرا گاندھی، شاہِ ایران محمدرضا پہلوی، امریکی صدر رچرڈ نکسن، اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر وغیرہ شامل تھے۔ ان تمام عالمی رہنماو¿ں نے بین الاقوامی سیاست پر بہت گہرے نقوش چھوڑے۔ ان تما م رہنماو¿ں کی موجودگی میں بھی بھٹو کو اقوام عالم میں غیر معمولی پذیرائی ملی۔
ہیں۔
میاں نواز شریف کے سیاسی سرپرست ضیاءالحق، بھٹو کے بدترین مخالف تھے اور اس بدترین مخالفت کے دور میں بھٹو نے بہادری اور جوان مردی کے ساتھ قیدو بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا اور پھانسی بھی جھول گئے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھٹو بننا اور تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنا آسان نہیں۔ذوالفقار علی بھٹو ایک نظریہ کا نام تھا، جسے پھانسی نہ مار سکی۔ جس کی جماعت ایک سیاسی تحریک کا نام اور غریب کی ترجمان تھی۔ جس کی جماعت کو آمرانہ ادوار کے جبر نہ ختم کرسکے اور پھانسی کے بعد بھی لوگ ”زندہ ہے بھٹو“ کا نعرہ لگاتے رہے۔

Zulfiqar Ali Bhutto Death Anniversar, Latif Dalmia, PPP USA

 

Related Articles

Back to top button