امیگریشن نیوز

امریکہ میں امیگرنٹ سمیت دیگر کمیونٹیز کو حقِ رائے دہی کےلئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے

ایڈوانس منٹ پراجیکٹ کی کو ڈائریکٹرکی جوڈتھ براون ڈیاناز ،’مائی فیملی ووٹا‘ تنظیم کی بورڈ چئیر کی ڈاکٹر گبریالا لیمس اور برینن سنٹر برائے ووٹنگ رائٹس اینڈ پروٹیکشن پروگرام کی ڈائریکٹرماریانا پیریز کا ’ایتھنک میڈیا سروسز ‘ کے زیر اہتمام میڈیا بریفنگ سے خطاب

صدارتی و جنرل الیکشن اور جارجیا میں ہونیوالے ’رن آف ‘ الیکشن کے بعد یہ معاملہ زیر بحث ہے کہ ’کمیونٹیز آف کلر‘ کو انتخابی عمل میں دبانے کی کوشش کی گئی اور انہیں اس عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی
ووٹرز حقوق کےلئے سرگرم کردار ادا کرنے اہم تنظیموں کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں ’کمیونٹیز آف کلر‘ کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کےلئے ضروری ہے کہ خاطر خواہ اقدام کئے جائیں ، الیکشن پراسیس میں انویسٹ کیا جائے
جان لوئس ووٹنگ ایکٹ سمیت قانون سازی کے امور کو جلد طے کیا جائے اور انتخابی وجمہوری عمل میں کمیونٹیز آف کلر سمیت سب کی شرکت کو ہر ممکن حد تک یقینی بنایا جائے، ووٹر ز کو ایجوکیٹ کریں

نیویارک (محسن ظہیر سے ) امریکہ میں تین نومبر کو ہونیوالے صدارتی و جنرل الیکشن اور پانچ جنوری 2021کو جارجیا ریاست میں یو ایس سینٹ کی دو نشستوں پر ہونیوالے ’رن آف ‘ الیکشن کے بعد امریکہ میں یہ معاملہ زیر بحث ہے کہ ’کمیونٹیز آف کلر‘ (مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں ) کو انتخابی عمل میں دبانے کی کوشش کی گئی اور انہیں اس عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ووٹرز کے حقوق کے لئے سرگرم کردار ادا کرنے اہم تنظیمیں کہ جنہوں نے ان الیکشن میں قابل ذکر کردار ادا کیا کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں ’کمیونٹیز آف کلر‘ کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن ایڈمسٹریٹرز کوخاطر خواہ وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ، جان لوئس ووٹنگ ایکٹ سمیت قانون سازی کے امور کو جلد طے کیا جائے اور انتخابی وجمہوری عمل میں کمیونٹیز آف کلر سمیت سب کی شرکت کو ہر ممکن حد تک یقینی بنایا جائے ۔ان ملے جلے خیالات کا اظہار ووٹرز کے حقوق کے لئے سرگرم کردار ادا کرنے اہم تنظیموںایڈوانس منٹ پراجیکٹ کی کو ڈائریکٹرکی جوڈتھ براون ڈیاناز ،’مائی فیملی ووٹا‘ تنظیم کی بورڈ چئیر کی ڈاکٹر گبریالا لیمس اور برینن سنٹر برائے ووٹنگ رائٹس اینڈ پروٹیکشن پروگرام کی ڈائریکٹرماریانا پیریز نے ’ایتھنک میڈیا سروسز ‘ کے زیر اہتمام میڈیا بریفنگ سے خطاب کے دوران کیا۔
ایتھنک میڈیا سروسز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینڈی کلوز کاکہنا تھا کہ حق رائے دہی امریکی جمہوری نظام کی بنیا دہے ۔تین نومبر کو ہونیوالے الیکشن میں اور بالخصوص جارجیا کے ’رن آف ‘ سینٹ الیکشن میں ’کمیونٹیز آف کلر‘ نے ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالے اور ان ووٹوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ایسے وقت پر کہ جب محاذ آرائی کی سیاست عروج پر ہے ، یہ امر قابل غور ہے کہ حق رائے دہی کتنا مضبوط اور محفوظ ہے اور اسے کن باتوں سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور کیا اقدامات لینے کی ضرورت ہے؟
ایڈوانس منٹ پراجیکٹ کی کو ڈائریکٹر جوڈتھ براو¿ن ڈیاناز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم 1999سے کریمنل جسٹس اور ووٹنگ رائٹس سمیت اہم امور پر کام کرتے ہیں ۔جہاں تک حق رائے دہی کا تعلق ہے تو ہم نے ووٹرز پروٹیکشن کے معاملا ت اور حلقہ بندیوں (ری ڈسٹرکٹنگ) کے حوالے سے کام کیا ۔ہمارے ملک میں سفید فام بالا دستی پر یقین رکھنے والا ایک طبقہ نہ صرف انتخابی نتائج بلکہ حکومت کو بھی مسترد کرنا چاہتا ہے۔نسل پرستی اور نفرت سے بیشتراوقات تشدد جنم لیتا ہے ۔جب کوئی یہ محسوس کرنے لگ جائے تو یہ اُ ن کا ملک ہے بجائے ، اس کے کہ یہ ہمارا ملک ہے ، تو ایک مخصوص طبقے کی جانب سے بالخصوص ، اگر وہ برسر اقتدار ہو ، کی جانب سے ایک تحریک شروع ہو جاتی ہے اور ایسی تحریک ہم نے پہلے بھی دیکھی ہے ۔
جوڈتھ براو¿ن ڈیاناز نے کہا کہ چھ جنوری کو جن لوگوں نے کانگریس بلڈنگ پر دھاوا بولا، وہ ایک خاص سوچ کے ساتھ آئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں کنفیڈریٹ جھنڈے بھی اٹھا رکھے تھے ۔ان کا یہ خیلا تھا کہ کنفیڈریسی ، دوبارہ واپس آئے گی ۔پولیس کا ان کے ساتھ جو روئیہ تھا ، وہ بھی قابل غور رہا ۔ اس کے برعکس موسم گرما میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ کی تحریک کے دوران احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا اور مار پیٹ کا شکار بھی بنایا گیا ۔یہاں پھر نسل کے معاملات زیر غور رہے ۔لہٰذا ہمیں ان مظاہروں، احتجاج جو کہ بغاوت کے زمرے میںآتے ہیں ، کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے اور انہیں عوامی منشاءکو مسترد کرنے کے تناظر میں دیکھنا چاہئیے ۔مذکورہ طبقے نے نومبر کے انتخابات کو اپنے سازشی مفروضوں اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی ۔ایسے الزامات بالخصوص ان شہروں اور علاقوں میں خاص طور پر عائد کئے گئے جہاں پر ’پیپل آف کلر ‘(مختلف رنگ و نسل کے لوگ) انتخابات اور ووٹنگ کے دوران بڑی تعدادمیں سامنے آئے اور اِن لوگوں پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ الیکشن اور الیکشن نتائج کو چرانا چاہتے ہیں ۔ ان الزامات کے کیا معنی ہیں ؟ان کے معنی ہیں کہ ’پیپل آف کلر ‘ کے حق رائے دہی کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ہم نے ایسا صدر اوبامہ کے الیکشن کے بعد بھی دیکھا ، ریاستی سطح پر ووٹر آئی ڈی سمیت دیگر اقدام کئے گئے ۔
جوڈتھ براو¿ن ڈیاناز کا مزید کہنا تھا کہ سال 2020کے الیکشن کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی قانون ساز ، انتخابی عمل کے حوالے سے مزید اقدامات اور تقاضوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔ان حالات میں ہم توقع کریں گے کہ کانگریس میں ’جان لوئیس ووٹنگ رائٹس ایکٹ ‘ پر پیش رفت ہو گی ۔ہم چاہتے ہیں کہ حق رائے دہی کو ہر ممکن سطح پر محفوظ اور یقینی بنایا جانا چاہئیے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو اس کے حق رائے دہی سے محروم نہیں کیا جانا چاہئیے ، حتیٰ کہ ’فیلونی ‘ کیسوں میں سزا یافتہ لوگوں کو بھی ووٹ کا حق ہونا چاہئیے ۔ کسی کو بھی ووٹ کے حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہئیے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے بھی تحفظات کو دور کرناچاہئیے ۔ووٹر آئی ڈی کے بارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ووٹر آئی ڈی (ووٹر کی شناخت ) کے حوالے سے ابھی ایسے مفروضے بیان کئے گئے کہ جنہیں بنیاد پر پر ووٹرز فراڈ کے الزامات عائد کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ لوگوں کی ووٹنگ کے وقت کیسے پہچان کی جائے تو اس کے بہت سے طریقے ہیں ۔
’مائی فیملی ووٹا‘ تنظیم کی بورڈ چئیر ڈاکٹر گبریالا لیمس نے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ سال 2020میںہم نے لاطینو کمیونٹی کو متحر ک کیا اور ان میں ہر ممکن حد تک آگاہی پیدا کی ۔اس سال ہم نے بالخصوص 10ریاستوں میں یہ کام کیا ۔ہم نے ملک گیر سطح پر لاطینو کمیونٹی میں بھرپور سرگرمیاں کیں اور ان سرگرمیوں کا دائرہ کار چاراہم (سوئنگ)ریاستوں مشی گن، وسکانسن اور جارجیا سمیت دیگر ریاستوں تک بڑھایا کہ جہاں پر کانٹے دار مقابلہ تھا ۔ہم نے سوئنگ ریاستوں اور بالخصوص ان ریاستوں کہ جہاں پر لاطینو کمیونٹی کی تعدادزیادہ تھی ، جو اپنا مرکز و محور بنایا ۔انہوںنے کہا کہ کسی بھی کمیونٹی کی ساسی طاقت کو منظم کرنے اور اس کمیونٹی کی جانب سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ کو یقینی بنانے کے لئے منظم اقدام کرنے پڑتے ہیں جو کہ ہم نے حالیہ الیکشن میں کئے ۔
ڈاکٹر گبریالا لیمس نے کہا کہ ہم نے ووٹرز کو ان الیکشن میں بہت ایجوکیٹ کیا ۔ انہیں ان کے ووٹ اور اس کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دی ۔یوتھ زیادہ تعداد میں ووٹ نہیں ڈالتے ۔ ان کو زیادہ فوکس کیا ۔ان کے ساتھ کوشش کی کہ ’ون آن ون‘ رابطے کئے ۔ووٹرز کو آئی ڈی سمیت دیگر تقاضوں کو بارے میں بتایا ۔ ان اقدامات کا اچھے نتائج برامد ہوئے ۔کورونا وائرس وبا کے دوران ان امور پر کام کرنا بڑا چیلنج تھا۔ہم نے موبائیل فون کو روابط کا اہم ذریعہ بنایا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ویڈیو آو¿ٹ ریچ کا بھی بھرپور استعمال کیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں 8.6ملین ووٹرز نے ’ارلی ووٹنگ ‘ آپشن کے تحت الیکشن والے دن سے پہلے ہی اپنے ووٹ ڈال دئیے ۔لاطینو کمیونٹی میں 2.4ملین نئے ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے ۔امریکہ میں لاطینو دوسرا بڑا ووٹنگ بلاک ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ لاطینو کمیونٹی کے ٹرن آو¿ٹ نے اہم ریاستوں میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ہم لوگوں کو ’امپاور‘ نہیں کرتے بلکہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ خود کو ’امپاور‘ کریں ۔
جارجیا ریاست میں سینٹ کے دو رن آف الیکشن کے بارے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر گبریالا لیمس نے کہا کہ جارجیا کے ’رن آف ‘ الیکشن میں80ہزار لاطینو ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی’ارلی ووٹنگ ‘ آپشن کے تحت قبل از الیکشن، استعمال کیا ۔ایک لاکھ 24ہزار نے الیکشن والے دن ووٹ ڈالے ۔ریاست میں ایک لاکھ 74ہزار لاطینو نے جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالے ۔ ہمیں جارجیا میں اپنے کام پر بہت فخر ہے کہ ہم نے سینٹ کی دو نشستوں کو پلٹ کر ڈیمورکیٹس کی سائیڈ پر کر دیا ۔اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ہم نے بہت کام کیا ۔ ہم نے بڑی تعداد میں ووٹرز تک رسائی کی اور اس امر کو یقینی بنایا کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں ۔اس کام کے لئے ہم نے ان سے ایک بار نہیں بلکہ تین سے چار باررابطہ کیا ۔اس کام میںہم نے دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر کولیشن کی شکل میںکام کیا ۔سینٹ الیکشن کے لئے ہم نے کئی ماہ پہلے کام شروع کیا ۔اس کام کے نتیجے میں جارجیا سے تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام اور ایک جیوئش سینیٹرمنتخب ہوا جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر گبریالا لیمس نے کہا کہ کموینٹیز جتنی کامیاب ہو ں گی ، انہیں دبانے کا عمل اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔اس لئے ہمیں حوصلہ شکنی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کا شکار ہونا چاہئیے ۔
برینن سنٹر برائے ووٹنگ رائٹس اینڈ پروٹیکشن پروگرام کی ڈائریکٹرماریانا پیریز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہم نے کیا کرنا چاہتے تھے ؟ہم نے کیا کیا ؟ اور آئندہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ حالیہ الیکشن میں ایسی قوتیں موجود تھیں کہ جو براون اور بلیک ووٹرز کی انتخابی عمل میں شرکت کو روکنا چاہتی تھیں ۔ان حالات میں ہم نے ووٹوں کو یقینی بنانے کا کام کورونا وائرس وبا جیسے حالات میں کیا کہ جس کا ایک صدی میں انسانیت کو پہلی بار مقابلہ ہے ۔یہ کام نے معاشی بحران کے دوران کیا ۔یہ کام ہم نے ایسے حالات میں کیا کہ جب سیاستدان ووٹرز کو کنفیوژ اور گمراہ کرنا چاہتے تھے اور اس کام کے لئے انہوں نے ووٹرز سے جھوٹ بولنے تک سے گریز نہیں کیا ۔انہوں نے کہا کہ 35ریاستوں نے کورونا وائرس وبا کے آغاز کے بعد اور ووٹنگ کے عمل کے دوران ، اپنی پالیسیوںکے حوالے سے کچھ ردو بدل کیا ۔ریاستی سطح پر ہونیوالا یہ رد بدل اور اصلاحات بہت اہمیت کی حامل رہیں ۔ ایس تبھی ممکن ہوا کہ جب امریکی عوام آگے بڑھیں اور انہوں نے اپنے کردار کو یقینی بنایا ۔اس کام کا کریڈٹ گورنمنٹ کو نہیں بلکہ ان افراد کو جاتا ہے کہ جنہوں نے اپنے کردار سے اسے یقینی بنایا۔ان افراد نے اداروں پر دباو¿ ڈالا کہ ووٹنگ کو آسان اور یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کئے جائیں ۔
ماریانا پیریز نے کہا کہ مذکورہ حالات و واقعات سے ہم یہ سبق سیکھا کہ بلیک، براو¿ن اور ایشین کمیونٹیز سمیت سب سے مسلسل رابطے کی ضرورت ہے ، انہیں سے مسلسل ڈیل کرنا ہوگا۔ہمیں اپنی اس کامیابی کو کافی نہیں سمجھنا چاہئیے بلکہ ہمیں بہتر سے بہتر کردار ادا کرنا ہوگا۔ بہت کچھ کیا اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم نے 340الیکشن کیسوں کو ٹریک کیا ۔یہاں میں یہ واضح کرنا ضروری اور اہم سمجھتی ہو ں کہ ہمیں صرف عدالتوں میں ہی نہیں بلکہ عوام کی عدالت میںبھی اپنے بھرپور موقف پیش کرنے اور انہیں قائل کرنے کی ضرورت ہے ۔ان اقدام سے ہمیں پبلک سپورٹ ملتی ہے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنا کا نادر موقع ملتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن جیسے معاملات کا بھی حقیقت سے تعلق ہے ۔مس انفارمیشن سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی غلطی کرے اور ایک خاص معلومات کو عام کردے ،ڈس انفارمیشن سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی جانتا ہو کہ بات غلط ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی وہ غلط بات اور معلومات کو عام کردے۔یہ کام جتنا اِس الیکشن میں ہوا، اس سے پہلے شاید ہی ہوا ہو ۔
ماریانا پیریز نے کہا کہ ہم نے ان الیکشن میں بہت سے سبق سیکھے اور سب سے اہم سبق یہ سیکھا کہ ہمارے نظام میں جو دراڑین (سقم) موجود ہیں، ان کے ’کمیونٹیز آف کلر‘(مختلف رنگ ونسل کی کمیونٹیز) پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ان الیکشن میں ہمیں ایک قسم کا چیلنج تھا، ہو سکتا ہے کہ اگلے سال اور اس سے اگلے سال ہمیں نئی قسم کے نئے چیلنجوں کا سامنا ہو۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کو جمہوری اور انتخابی عمل سے طے کرنا ہوتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اپنے انتخابی نظام میں ’انویسٹ ‘ کرنا ہوگا۔بہت سے ایسے کام ہیں کہ جنہیں وسائل کی مدد سے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔بعض اوقات وسائل مالی ہوتے ہیں جبکہ بعض اوقات افراد اور افرادی قوت کے وسائل کی اہمیت ہوتی ہے ۔جب چیلنجوں کا سامنا ہو تو ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ۔
ماریانا پیریز نے کہا کہ ہمارے الیکشن ایڈمنسٹریٹرز کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے ، ان پر دباو¿ ڈالا گیا اور حتیٰ کہ دھمکیاں تک دی گئیں ، ان کے خلاف مقدمات دائر کئے گئے ۔ ہمیں اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگاکہ کانگریس اپنا کردار ادا کرے ۔ کانگریس کو جان لوئیس ووٹنگ رائٹس ایکٹ پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔دوسرا ’ایچ آر ون‘ جو کہ ایک متعدد مسودات قوانین کا ایک مجموعہ ہے ، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو بالخصوص میڈیا کو ہر روز بھرپور انداز میں یہ موقف سامنے لانا چاہئیے کہ ہمیں ایسی جمہوریت کو یقینی بنانا ہے کہ جس میں عوام کی ہر ممکن شمولیت اور منشاءکو یقینی بنایا گیا ہو۔
ماریانا پیریز نے کہا کہ وہ تمام کمیونٹیز کہ جنہیں ایک مخصوص طبقہ انتخابی عمل سے دور رکھنا چاہتا ہے ، ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ بھی اس میز پر موجود ہوں کہ جہاں پر ہر ایک کی انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے بارے میں فیصلے ہوں اور پالیسیاں مرتب ہوں ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سال2020کی الیکشن سیکورٹی کے حوالے وسائل ایک اہم چیلنج تھا۔ٹیکنالوجی اور سائبر حملوں کے حوالے سے چیلنجز ہیں ، جن سے نبرد آزما ہونے کے لئے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔الیکشن سیکورٹی بل کانگریس میں زیر التواءہے جس پر دونوں اطراف سے خاطر خواہ سپورٹ موجود ہے ۔الیکشن ایڈمنسٹریٹرز کے پاس خاطر خواہ وسائل ہونے چاہئیے ۔
ایشین کمیونٹیز کے بارے ایک سوال کے جواب میں ایڈوانس منٹ پراجیکٹ کی کو ڈائریکٹر جوڈتھ براو¿ن ڈیاناز نے کہا کہ ایک خاص شخص نے یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی کہ کورونا وائرس ایک خاص ملک سے آیا اور اس ملک سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑاکہ جس میں انگلیاں ایک خاص طرف اٹھا جا رہی تھی ۔
ایک سوال کے جواب میں ماریانا نے کہا کہ زبان کی بھی اہم اہمیت ہے۔ جب کمیونٹیز میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لینگوئج اہمیت کی حامل بن جاتی ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر لیموس نے کہا کہ یہ تاثردرست نہیں کہ لاطینو کمیونٹی صرف ، امیگریشن کے بارے میں زیادہ پرواہ کرتی ہے ، انہیں تعلی، صحت عامہ سمیت دیگر امور کے بارے میں بھی پرواہ ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ لاطینو کمیونٹی کی اکثریت نے صدر ٹرمپ کو ووٹ دئیے ۔
جوڈتھ براون ڈیاناز کا کہنا تھا کہ ہمیں الیکشن کے حوالے سے قومی معیار کو یقینی بنانا چاہئیے ۔ووٹنگ رائٹس کو یقینی بنانا چاہئیے ۔

How Safe is Your Right to Vote?

Judith A. Browne Dianis, a civil rights attorney and co-director of the Advancement Project
Dr. Gabriela D. Lemus, Board chair, Mi Familia Vota
Myrna Perez, Director, Brennan Center’s Voting Rights and Protections Program

 

Related Articles

Back to top button