یہ مئی 1998 تھا جب بھارت نے ” مس راتا بدھا ” کے ایٹمی تجربے کے کئی برسوں بعد یکے بعد دیگرے مزید ایٹمی دھماکے کر ڈالے اور خطے میں عدم توازن قائم کرنے کے بعد ایسے بیانات دینا شروع کر دیئے جیسے ان کا ہمسایہ پاکستان نہ ہو بلکہ برطانوی دور کی کوئی ” دیسی ریاست ” ہو۔ پاکستان کے جوابی دھماکوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی رویے کا ایک فقرہ میں مکمل طور پر احاطہ کر دیا تھا کہ ” وہ اپنے ہمسایوں سے بات کرنے کا طریقہ ہی بھول گئے تھے ” ذرا ٹھہریں یوکرائن کی جانب توجہ کرتے ہیں۔ سوویت یونین جب لڑکھڑا رہا تھا تو اس وقت یوکرائن میں آزادی کے جذبات بھڑکنے لگے۔ اور ان جذبات کے لئے امریکی ، مغربی ہمدردی حاصل کرنے کی غرض سے وہاں پر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف نعرہ بلند کیا گیا۔
سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا یوکرائن آزاد ہوگیا، ایسا یوکرائن جس کے پاس 1900 سٹرٹیجک وار ہیڈز ، 176 انٹرنیشنل بلاسٹک میزائل ( آئی سی بی آمز ) اور 44 سٹرٹیجک بومبرز سمیت دنیا میں تیسرا بڑا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود تھا۔ آزادی کے بعد یوکرائن اس نعرے کی طرف بڑھا اور انیس سو اکانوے میں یوکرائن نے اسٹرٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی ( سٹارٹ ) کی جانب بھی بڑھ گیا۔ کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ اسٹیٹس نے منسک معاہدہ 30 دسمبر 1991 کو کیا تھا جس میں ایٹمی ہتھیاروں کو روس کو دینے کی بات تھی۔ انیس سو بانوے میں لزبن پروٹوکول پر دستخط کیے۔ لیکن انیس سو بانوے کے آخر میں یوکرائن کے ہوش مند سیاستدانوں نے ایٹمی طور پر مکمل غیر مسلح ہونے کی مخالفت شروع کر دی اور پارلیمنٹ میں یوکرائن کے عارضی نیوکلیئر حیثیت کی برقراری کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی۔
انیس سو ترانوے میں 162 یوکرائنی سیاستدانوں نے ایک دستاویز جاری کی جس میں ان پی ٹی اور اسٹریٹجی آرمز ریڈکشن ٹریٹی کی توثیق کے لیے تیرہ شرائط کو پیش کیا گیا۔ اس میں امریکہ اور روس سے سلامتی کی ضمانت، غیر ملکی مالی امداد اور صرف 36 فیصد ہتھیار پھینکنے والے اثاثے اور 42 فیصد ہتھیار ختم کرنے کی شرائط رکھی گئی۔ امریکہ اس میں مکمل طور پر ملوث ہو چکا تھا۔ اس نے 1992 میں یوکرائن کو ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے لیے 175 ملین ڈالر کا وعدہ کیا تھا۔ اس لئے امریکہ اور روس نے یوکرائنی سیاستدانوں کی کچھ ایٹمی ہتھیار رکھنے کی شرط کو مسترد کر دیا۔
امریکہ نے مزید متحرک ہوتے ہوئے 1993 میں یوکرائن کو مزید مالی مدد کی پیشکش کی۔ یوکرائن جھانسے میں آ گیا اور انیس سو چورانوے میں بوڈاپیسٹ میمورنڈم ہوگیا جس میں یوکرائن نے ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہونے اور این پی ٹی اور سٹرٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی کی توثیق کا اعلان ان وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے کیا کہ امریکہ اور روس اس کی موجودہ سرحدوں کے احترام ، اقتدار اعلی اور سیاسی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے رہے تھے۔ 2009 میں جب سٹرٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی کی مدت پوری ہو گئی تب بھی امریکہ اور روس نے مشترکہ بیان جاری کیا کہ وہ دونوں اب بھی بڈاپیسٹ میمورنڈم پر قائم ہے اور وہ منسوخ نہیں ہوا ہے۔ اس دوران یوکرائن میں حکومتیں نیٹو یا روس کی سربراہی میں قائم کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن ( سی ایس ٹی او ) میں شامل ہونے سے کترا رہی تھی مگر وہاں پر امریکہ اور یورپ کے ایما پر نیٹو میں اور روس کے ایمان پر سی ایس ٹی او میں شمولیت پر بحث مباحثہ زور و شور سے جاری ہوچکا تھا۔ وکٹر یونوکووچ 2010 میں یوکرائن کے صدر منتخب ہوئے حالات پر ان کی گہری نظر تھی وہ روس کو ناراض کرنے کے خطرات سے آگاہ تھے اور امریکہ اور یورپی یونین سے بھی تعلقات رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے نیٹو یا سی ایس ٹی او میں شمولیت سے احتراز کیا۔ روس سے کریمیا میں یوکرائن روس نیول بیس فار نیچرل گیس ٹریٹی کر لی اور امریکہ یورپ میں ان کو ہٹانے کے خیالات تقو?ت پکڑتے چلے گئے۔
صدر نے یورپی یونین سے ایسوسی ایشن معاہدہ میں گرمجوشی نہیں دکھائی اور وہ روس سے معاشی رشتوں کو مزید استوار کرنے لگے ان کا کہنا تھا کہ ہم نا تو روس کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی نیٹو کو ناراض کر سکتے ہیں لیکن نیٹو ان سے ناراض ہو گئی نومبر 2013 میں ان کی یورپ کے حوالے سے پالیسی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور بغیر سوچے سمجھے عوام کی ایک تعداد بھی ان مظاہروں میں شامل ہوگئی ۔ صدر کو ہٹانے کا اختیار پارلیمنٹ کو تھا پارلیمنٹ میں مواخذے کے لیے مطلوبہ آئینی طریقہ کار اختیار کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے طریقہ کار کو ہی پامال کر دیا گیا اور صدر وکٹر کو ہٹانے کا اعلان کر دیا گیا۔ عدالت سے اس عمل کی تنسیخ کا امکان تھا اس لئے پانچ ججوں کو ہی برخواست کر دیا گیا اور اس کے آئینی ہونے پر زبردست سوالات قائم ہوگئے۔ صدر وکٹر تو جان بچا کر روس چلے گئے مگر اس کے بعد روس نے واضح کردیا کہ ہمارا وہاں کی قانونی حکومت سے معاہدہ تھا اور اب وہاں پر قانونی حکومت موجود نہیں رہی پھر کریمیاسے لے کر موجودہ حالات تک ایک تسلسل ہیں۔ حالانکہ کسی ملک پر غیر قانونی حکومت مسلط ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس کو روندنا جائز ہوجائے گا بلکہ اس وقت چین کے صدر نے ہوش مندی کی بات کی ہے کہ مذاکرات کی راہ اختیار کی جانی چاہیے تائیوان کے حوالے سے وہ اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔
ان کو مغرب نے بہت مشتعل کرنے کی کوشش کی مگر وہ بدستور تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ یوکرائن کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالے اور پھر تصور میں لائیں کہ جب بھارت ایٹمی تجربات کے بعد آپے سے باہر ہو رہا تھا تو اس وقت امریکہ اور مغربی دنیا پاکستان پر زبردست دباو¿ ڈال رہی تھی پابندیوں سے ڈرا رہی تھی۔
امریکی صدر کلنٹن وزیراعظم نوازشریف کو پابندیوں کی بجائے پانچ ارب ڈالر کی پاکستان کو مالی مدد کی بھی پیشکش کر رہے تھے اور وزیراعظم نواز شریف صدر کلنٹن کو جواب دے رہے تھے کہ پاکستانی وہ قوم نہیں جو اب یا مستقبل میں بھی کبھی چند ڈالروں پر قابل فروخت ہو۔ خیال رہے کہ یوکرائن 175 ملین ڈالر کے وعدوں پر ڈھیر ہوگیا تھا ۔کاغذی سلامتی کے معاہدوں پر ایمان لے آیا تھا اور آج چار کروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والا اور کبھی دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا تیسرا بڑا ذخیرہ کرنے والا ملک روس کے سامنے دیسی ریاست کی مانند موسم بہار میں خزاں کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر اگر غلط فیصلہ کرلیا جاتا تو کیا ہوتا؟ یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں دھماکوں کی آوازیں سنئیے اور پناہ گاہوں کو تلاش کرتے مجبور عوام کو سامنے رکھے۔ جواب سامنے موجود ہے۔
"
"