کالم و مضامین

پاکستانی امریکیوں کے اجڑتے گھرانے

تحریر :آیت اللہ ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی (نیویارک )

امریکی پاکستانیوں کی اولادوں کے کرتوت ،گھریلو جھگڑوں کے باعث قتل کا بڑھتا ہوا رجحان، اسباب اور روک تھام

اکیس نومبر2020 کو امریکی ٹیکساس کے شہر ”کلین“میں ایک لرزہ خیز واردات نے کلیجہ ہلا دیا ہے۔ ایک پاکستانی امریکن کو اسکے 21 سالہ بیٹے نے گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ قاتل بیٹا گرفتار ہوگیا ہے ،اس قتل کی وجہ گھریلو جھگڑے اور مسلسل ناچاقی بتائی جاتی ہے جسکی سزا قتل نہیں ہو سکتی ، گھریلو جھگڑے ہر گھر میں ہوتے ہیں بلکہ لڑائی جھگڑا ہمارے پاکستانیوں کا طرہ امتیاز اور عادت ثانویہ بن چکی ہے۔ تاہم انکا نتیجہ اتنا بھیانک سمجھ سے بالا تر ہے۔ قاتل بیٹا دنیا میں جوانی کی ساری بہاریں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے گا۔ ضمانت کیلئے ایک لاکھ کا مچلکہ جمع کرانا ہوگا۔ سزا تو ملے گی
گھر کی نا چاقی خاندان کے سربراہ باپ ، شوہر کے لئے جان لیوا ثابت ہوا، پورے کا پورا گھر اجڑ گیا اور چاند جیسا بیٹا عمر بھر جیلوں میں زندہ در گور ہو گا ! سچ ہے
بقول شاعر۔۔۔لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
بیٹا دنیا میں تو سزا پائے گا ہی ! تاہم آخرت میں تو ابدی جہنم انٹظار میں ہوگی۔ باپ گولی لگنے پر سوچتا تو ہوگا کہ اسی لئے میں نے رات دن ٹیکسی چلا کر اس اولاد کو پالا تھا کہ بیٹا اسی انگلی سے میرے سینے سے گولی پار کردے جسے پکڑ کر میں نے اسے بڑا کیا تھا۔واضح رہے عموماً خانگی لڑائیوں جھگڑوں میں قصور ایک سائیڈ کا نہیں ہوتا تاہم اگر ایک سائیڈ سمجھداری کرلے تو ایسے بھیانک جرائم جنم نہ لیں کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔وہ بیچارہ گولی لگنے کے بعد سوچتا تو ہوگا کہ اسی لئے میں نے گھر والوں کو مرسڈیز لے کر دی تھی اسی لئے میں نے محل نما گھر لے کر دیا تھا۔ اسی لئے میں نے محنت کی تھی کہ اس شجر کو ہی کاٹ دیا جائے جسکے سائے میں وہ پلے بڑھے تھے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جولائی 2014 میں لٹل پاکستان بروکلین میں ایک 19 سالہ لڑکے نے اپنے باپ کو گھریلو چھری کے وار کرکے قتل کر دیا تھا اور خود کو لہو لہان حالت میں قانون کے حوالے کر دیا تھا۔ اسکا باپ بھی ٹیکسی سے کروڑ پتی بنا تھا۔
اسی بروکلین میں اسی سال ستمبر 2020کے مہینے میں ایک جوان پاکستانی لڑکا اپنے ہی دوستوں کی فائرنگ سے اپنی مرسڈیز گاڑی میں مردہ پایا گیا۔ اسکے بارے میں پتہ چلا ہے کہ یہ لڑکا مسجد ، اسکول وغیرہ سے بھاگ گیا تھا اور گینگز میں شامل ہوگیا تھا اسکے معمولات غیر معمولی اور مشکوک تھے۔ اسکی ساری جولانیت اسکی جان کے ضیاع اور گھر والوں کو ابدی اذیت سے منتج ہوئی۔ پناہ بخدا۔ پاکستانی جوانوں ایک گینگ پکڑی گئی جو بینک لوٹتی تھی ایک اور ریاست میں ہم وطن جوانوں کا گروہ پکڑا گیا ہے جو راتوں رات امیر بنے کے چکر میں دوسروں کے کارڈز استعمال کرنے کا دھندہ کرتا تھا انھیں گھروں میں قید رکھا گیا ہے۔ ایک جوان لڑکا اپنی بیوی کو قتل کرکے جیل میں عمر قید بھگت رہا ہے۔ بوڑھے ماں باپ نیم مردہ ہوگئے۔ بلکہ کئی ایسے جوان ہیں جو اپنی پاکستانی یا غیر ملکی بیویوں کی زندگیوں کے چراغ بجھا اپنے مدھم چراغوں کے بجھنے کی امید لئے سلاخوں پیچھے بیٹھے ہیں۔ اور کتنی بیویاں ایسے جرائم کر چکی ہیں۔ کتنے لڑکے اور لڑکیاں اپنی پسند کی شادیوں کے چکر میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کے منہ پر کالک مل چکی ہیں۔ بوڑھے ماں باپ نے شب و روز کام کرکے جنہیں پروان چڑھایا تھا وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے تابوت دیکھنے کے منتظر ہیں۔
کچھ جلدی کرکے خود ہی انہیں موت کی آغوش میں سلا رہے ہیں کچھ سلو پوائزن کی طرح ڈوز دیے جارہے ہیں۔ یہ تو اولادوں کے بارے مختصر ترین روداد تھی دوسری طرف میاں بیویوں کو قتل کر رہے ہیں۔بیویاں شوہروں کی زندگیوں کے چراغ بجھا رہی ہیں۔اسی سال کے اوائل میں ایک پاکستانی شوہر نے کوئینز میں اپنی بیوی کو چھریوں سے ذبح کر دیا تھا۔ اور بیٹی کو بھی زخمی کر دیا تھا۔کچھ عرصہ قبل بفلو(نیویارک سٹیٹ ) میں ایک اہم تاجر ایک ٹی وی چینل کے بانی نے اپنی بیوی کو مار دیا تھا۔ جو گرفتار بھی ہوگیا تھا۔ میں نے صرف آٹھ واقعات پر اپنی تحریر کو محدود کیا ہے۔
ورنہ اگر پولیس رپورٹس ہی کو اکٹھا کیا جائے تو ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔ مقصد قارئین میں خوف و ہراس پھیلانا نہیں نہ ہی کسی کو بد نام کرنا مقصود ہے اسی لئے کسی کا اشارے کنائے میں نام تک ذکر نہیں کیا ہے۔ اس آرٹیکل کا اصل ہدف ان بے راہ روانہ کاروائیوں کے محرکات سے پردہ اٹھانا اور انکی روک تھام کیلئے تدارکی اقدامات کی کاوش ہے۔ اگر ہو سکے تو!
جن دو بیٹوں نے باپ مارے ہیں یا خانگی جھگڑا تھا یا آوارہ گردی کی وجوہات ملی ہیں۔ جو جوان گینگسٹرز نے مارا ہے اسکے مشکوک معمولات پر نظر نہیں رکھی گئی۔ وہ ڈر گز میں ملوث تھا۔جنھوں نے بینک لوٹے یا کارڈز مارے وہ راتوں رات امیر بننا چاہتے تھے۔ جن لڑکوں اور لڑکیوں نے کالک ملی یا وہ دین اور کلچر سے دور رکھی گئیں یا انھیں بلاوجہ شادیوں سے دور رکھا گیا۔ اگر ہمارے ہم وطن مراکز دین۔ مساجد اور علمائے کرام سے کونسلنگ لیتے، کمیونٹی کے بزرگوں سے اپنا دکھ درد شئیر کرتے۔ اگر جھگڑوں کے فیصلے گولیوں کی بجائے اسلام کے احکام طلاق و خلع و رجوع و ایلاءسے ہوتے تو یہ رسوائیاں نہ دیکھنی پڑتیں۔ ہمارے ہاں ایک اور المیہ ہے کہ کچھ مراکز تو جھگڑوں کے مرکز بنے ہیں۔ کمیونٹی میں کسی کا راز پتہ چلے تو اسے رسوا کر دیا جاتا ہے۔ پردہ پوشی یا پردہ داری نا پید ہے کونسلنگ کا کوئی سالڈ اہتمام ہے ہی نہیں۔ پاکستانیوں کو چاہئے تھا امریکہ میں اپنی کالونیاں بناتے انہوں نے سوچاہی نہیں۔ انہوں نے یہاں کے کمائے ہوئے پیسے سے پاکستان میں شہر آباد کردیے مگر امریکہ میں ایک کالونی بھی نہ بناسکے۔ ذیل میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں ! گر قبول افتد زہے عز و شرف
۱:- پاکستانی لائسنس دار اسلحہ بھی گھر میں نہ رکھیں
۲:- جوانوں کو مراکز و مساجد و علماءسے دور نہ کریں
۳:- مساجد و مراکز اور علماءکونسلنگ کا نظام بنائیں
۴:- والدین اپنے جھگڑوں میں اولاد کو گواہ نہ بنائیں
۵:- میاں بیوی اپنے جھگڑوں کیلئے بزرگوں سے مدد لیں
۶:- رشتہ دار لگائی بجھائی سے پرہیز کریں
۷:- یوتھ سیشنز بزرگوں کی نگرانی میں رکھے جائیں
۸:- والدین اور اولادوں کو ایک دوسرے کے حقوق سے باخبر کیا جائے
۹:- اولاد کی خاطر میاں بیوی عفو و درگزر سے کام لیں
۱۰:- سال میں ایک مرتبہ اولاد اور فیملی کو عمرہ ، حج یا زیارات پر لے جائیں
۱۱:- بیویاں زیادہ توقعات چھوڑ دیں اورچبد کلامی نہ کریں
۱۲ شوہر بیویوں کو لونڈیاں سمجھنا چھوڑ دیں اور گالی گلوچ ترک کر دیں
۱۳:- اولاد اور اہل خانہ کو دین اور قانون کءپابندی سکھائیں
۱۴:- جب تک اولاد منزل مقصود تک نہیں پہنچتی بے جا سوشیالوجی ترک کر دیں
اللہ میرے ہم وطنوں کو سلامت رکھے اور آئندہ مندرجہ بالا واقعات کبھی پیش نہ آئیں، آمین

Dr Allama Sakhawat Hussain Sandralvi Column New York

Related Articles

Back to top button