پاکستان کی پارلیمانی سیاست محاذ آرائی اور تقسیم در تقسیم کی انتہا تک پہنچ گئی ہے ، اپوزیشن سیاست میں کلیدی کردار اد ا کرنے والی جماعت PTI کی جانب سے کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے ، کی سیاست نے ملکی سیاست کو بند گلی میں داخل کر دیا ہے
آئین کے تحت صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نوے دنوں میں الیکشن ہونے چاہئیے لیکن ملک کے موجودہ معاشی حالات اس سیاسی ہلچل اور عدم استحکا م کے متحل ہو سکیں گے یا نہیں ؟ یہ ہے وہ ملین ڈالر کا سوال کہ جس کا سب کو جواب چاہئیے
موجودہ حالات میں بڑا سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ موجودہ بھاری بھر کم عدم استحکام پر مشتمل سیاست چلائی جائے یا ملکی معیشت کو بچایا جائے یا کشتی سے بھاری بھر کم عدم استحکام کی سیاست کو بوجھ اتار کر معیشت کوبچایا جائے
عالمی مالیاتی ادارے، امداد کرنے والے دوست ممالک ، آئی ایم ایف سمیت دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی قومی قیادت ملکی معیشت پر سیاست کررہے ہیں، ان حالات میں قرضوں کا اجراءاور امداد کے فیصلے کرتے وقت وہ بھی مشکل کا شکارہو رہے ہیں
اسلام آباد ( محسن ظہیر سے ) پاکستان کی پارلیمانی سیاست محاذ آرائی اور تقسیم در تقسیم کی انتہا تک پہنچ گئی ہے ، اپوزیشن سیاست میں کلیدی کردار اد ا کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی جانب سے کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے ، کی سیاست نے ملکی سیاست کو بند گلی میں داخل کر دیا ہے ۔ پاکستانی کی پارلیمانی و سیاسی قیادت ایسے وقت پر بند گلی میں پھنس ہے کہ جب وقت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ ملک کے معاشی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے پر مرکوز کریں ۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی جانب سے یکے بعد دیگرے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی جا چکی ہیں اور اسے سے بھی بڑھ کر تحریک انصاف قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتی یا صدر عارف علوی ،میاں شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتی تو اس سے پہلے ہی سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے 35ارکان قومی اسمبلی کے استعفیٰ منظور کر لئے گئے ۔ یہ استعفے ایسے وقت پر منظور کئے گئے ہیں کہ جب کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت سے الگ ہونے کا اقدام اٹھایا جا سکتا تھا ۔
آئین کے تحت صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نوے دنوں میں الیکشن ہونے چاہئیے اور قومی اسمبلی کی بھی جو نشستیں خالی ہوئیں ، ان پر بھی ضمنی الیکشن ہونے چاہئیے لیکن ملک کے موجودہ معاشی حالات اس سیاسی ہلچل اور عدم استحکا م کے متحل ہو سکیں گے یا نہیں ؟ یہ ہے وہ ملین ڈالر کا سوال کہ جس کا سب کو جواب چاہئیے ۔
بعض معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی معیشت اس وقت وینٹی لیٹر پر چل رہی ہے اور ہر آنیوالا دن پاکستان کے لئے ایک نیا معاشی چیلنج سامنے لا رہا ہے ۔ لہٰذا ان حالات میں بڑا سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ موجودہ بھاری بھر کم عدم استحکام پر مشتمل سیاست چلائی جائے یا ملکی معیشت کو بچایا جائے یا کشتی سے بھاری بھر کم عدم استحکام کی سیاست کو بوجھ اتار کر معیشت کوبچایا جائے۔
عالمی مالیاتی ادارے ، پاکستا ن کی امداد کرنے والے دوست ممالک ، آئی ایم ایف سمیت دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی قومی قیادت ملکی معیشت پر سیاست کررہے ہیں اور بدستور کررہے ہیں ۔ ان حالات میں قرضوں کا اجراءاور امداد کے فیصلے کرتے وقت وہ بھی مشکل کا شکارہو رہے ہیں