کالم و مضامین

ایک انار سو بیمار(قسط اوّل)

خصوصی مضمون ۔۔۔۔۔۔ سید کاظم رضا نقوی

مملکت پاک کی عوام ملکی آزادی کے بہتر برس بیت جانے کے بعد بھی اپنی غلامی کے اس دور کے قصے بیان کرتی ہے جو کچھ بچے کھچے لوگوں کی زبانی ان کو معلوم ہوتے ہیں ہر چند اب ایسے لوگ شاز و نادر ہی ملتے ہیں لیکن اللہ انکی حیات لمبی فرمائے حیات ہیں۔
اپنی غلامی پر ناز کرنا اور اسکے قصے بیان کرنا بڑا عجیب و غریب لگتا ہے خاص طور پر اب اس دوسری اور تیسری پیڑھی کو جن کی ھجرت اب بھی جاری ہے جس میں یہ خاکسار بھی شامل ہے مملکت کیا بنی ایسے ایسے زندہ معجزے دیکھے کہ عقل حیران ہے اور دماغ سن± ہوجاتا ہے اور محدود انسانی عقل معمے کی گتھیاں سلجھانے سے قاصر دکھتی ہے !!!
معلوم نہیں یہ عوام کا قصور ہے یا اس ملک± کا یا فرنگی ساذش کا جس کا جواب کسی کو ابھی تک ملا نہیں ہاں ایک انگلی سامنے اور چار اپنی طرف کرکے الزامات کی بوچھاڑ کا نظارہ اس ملک کی عوام نے بہت دیکھا اور دیکھ رہی ہے ، ملکی بقاءکی خاطر مارشل لاءاور جمہوریت کے مزے چکھ لینے کے بعد مل±ا ملٹری اتحاد بھی کوءقابل ذکر اور تشفی حل دینے میں ناکام رہا بس فوجی ادوار میں ڈالر کی قیمتیں استحکام پزیر رہیں لیکن پھر شائد اس کو بھی نظر لگ گئ!!
ایک ایٹمی طاقت رکھنے والا مسلمان ملک جو دیگر مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے وجہ اسکی جوہری طاقت ہے جسکی وجہ سے ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہوجاتا ہے روایتی ہتھیار جتنے بھی ترقی یافتہ ہوجائیں لیکن یہ ایک ان سب پر بھاری ہے شائد زرداری ہے !!! اسکا نام غلط رکھا گیا۔۔۔۔
امریکہ سے قبل برطانیہ عالمی طاقت ہوا کرتا تھا انکی فوج غرور سے اکڑی سرخ وردی پہنتی جو دور سے دکھے طبل جنگ کے ساتھ اور دشمن کو دور دہشت زدہ کیا جائے برعکس آج کے کہ وہ کیمو فلاج وردی پہنے وہ فوج ھندوستان میں تمباکو کو زریعہ بناکر داخل ہوءاور پورے ملک پر قابض ہوگءلیکن آج دشمن اس سے سبق سیکھ چکا ہے دوسری عالمی جنگ نے برطانیہ کو کمزور کیا تو ان سے جان چھوٹی۔
اب برطانیہ کا سیاستدان جس کو پیٹ لگا تھا اپنی ہی فوج پر الزام لگائے وہاں سے سرمایہ اٹھائے کھسک گیا اور امریکہ آباد کر ڈالا یہ کہہ کر کہ انکی طاقتور فوج انکے وسائل کھا جاتی ہے لیکن یہاں بھی ایک ھندو گھاگ بنیاءجوکہ تعلیم یافتہ تھا بڑی خاموشی سے امریکہ میں کمپیوٹر کی رسی پکڑے آ دھمکا اسکو تمباکو کی ضرورت نہ پڑی واردات وہی لیکن طریقہ بدل گیا !! کاش سر سید خان جیسے لوگ آج کثرت سے ہوتے جوکہ باریش دین دار لیکن تعلیم کی وجہ سے باشعور تھے۔

Syed Kazim Raza Naqvi Column

Related Articles

Back to top button