کالم و مضامینامیگریشن نیوز

پاک نیپال تعلقات، افغانستان کی صورتحال،شہباز شریف سے ملاقات

تحریر: محمد مہدی (لاہور )

 یہ بنوں واقعہ سے چند ایام قبل کی بات ہے۔ نیپال کے سفیر نے پانچ سات افراد کو اپنے پاس دعوت پر مدعو کیا۔ وہ پاک نیپال تعلقات میں بڑھوتری کے لئے بہت کوشاں ہے اور اگر ہم جنوبی ایشیا کی سیاست اور پاکستانی مفادات کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آجائے گی کہ ہمارے لئے نیپال ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ وہیں سے ہمارے ایک ریٹائرڈ کرنل کو بھی بھارت نے اغوا کیا تھا اور ہم ابھی تک اس معاملے پر بھی بس بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔

بہرحال وہاں پر میں نے احباب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب شہباز شریف عمران خان اور جسٹس جاوید اقبال کی قید سے رہا ہوئے تو ان سے اس کے چند روز بعد ون ٹو ون ملاقات ان کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ جس میں میں نے ان سے گزارش کی کہ افغانستان کے بدلتے حالات اس امر کو ظاہر کر رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی زیر سرپرستی قائم نظام حکومت امریکہ کی رخصتی کے ساتھ ہی زمین بوس ہو جائے گا اور اس کے بعد افغانستان میں تو جو ہوگا سو ہوگا مگر وطن عزیز کو از سر نو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ افغانستان سے وطن عزیز کی جانب کبھی بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نہیں چلے ہیں بلکہ لو کے تھپیڑوں سے ہی آزادی کے وقت سے ہم کو سابقہ پڑ رہا ہے۔

شہباز شریف نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ایسا کیوں ہو گا ؟ تو ان کے گوش گزار کیا تھا کہ افغانستان کے حکمران روز اول سے خیال رکھتے ہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرکے وہ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ مفادات سمیٹ سکتے ہیں۔ ظاہر شاہ اور ان کے بعد کمیونسٹ نواز حکمرانوں نے نسلی بنیاد پر ہمارے لئے درد سر بنائے رکھا اور ہر شورش کو اپنے پاس پناہ دی۔ اور ان کے بعد مذہبی بنیاد پر یہی حربہ دوہرایا جانے لگا پاکستان کے جو معاشی حالات ہیں ان کی بنا پر پاکستان کو افغان سرحد پر معاشی نقل و حرکت پر سختی کرنی پڑے گی ، ہر طرح کی سمگلنگ پر روک تھام کی پالیسی اپنانی ہوگی اور اس کے جواب کے طور پر وہاں سے سرحد پر حالات خراب کرنے سے لے کر پاکستان کے اندر تک معاملات کو خراب کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے گی۔ اور ہمیں اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے اپنی حکمت عملی کو تشکیل دینا پڑے گا۔

یہ بھی عرض کیا تھا کہ عمران خان اور افغان پالیسی کے کرتا دھرتاو¿ں کی حکمت عملی میں اتنا جھول ہے کہ دوبارہ سے دہشت گرد عناصر کو پنپنے اور واپس آنے کا موقع میسر آ رہا ہے۔ جب بنوں واقعہ ہوا اور اسلام آباد میں خود کش حملہ ہوا تو اس گفتگو کی یاد آئی کہ جس المیہ کی پیشگوئی کی تھی وہ دروازے سے اندر داخل ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں جس رفتار سے پولیس والوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں وہ خطرے کی گھنٹی تھی جو گھنٹی اب پورے ملک میں بج رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک مربوط حکمت عملی کو اس حوالے سے تشکیل دے جس میں صرف طاقت کا استعمال ہی حربہ نہ ہو۔

اس امر کی بھی فوری طور پر تفتیش ہونی چاہیے کہ گزشتہ عمران حکومت میں ان لوگوں کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع کس نے دیا۔ افغان پالیسی کا کون ذمہ دار تھا ؟ ہر کردار کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔ کیونکہ اگر حالات اسی طرح خراب ہوتے چلے گئے تو ایسی صورت میں ملک کی معاشی بحالی کی امید رکھنا درست نہیں ہوگا۔ ہم یورپ سے معاشی بحالی میں تعاون چاہتے ہیں انہوں نے ہمیں جی ایس پی پلس دیا۔ 2008 میں ، میں یورپی ممالک کے دورے پر ان ممالک کی دعوت پر گیا تو اس وقت جی ایس پی پلس دینے کے حوالے سے بات ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ کو یہ درجہ تو مل جائے گا مگر پاکستان امن وامان کے حالات کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ آپ مجھے دوبارہ یورپ کے دورے کی دعوت ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک یورپی سفیر نے مجھے کہا کہ اب تو یہ بھی سوال وہاں پر زبر دست طور پر زیر بحث ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مذہبی آزادیوں کی صورتحال بھی قابل افسوس حد تک گر چکی ہے۔ روز مذہبی بنیادوں پر شہریوں پر مقدمات قائم کئے جارہے ہیں ایسی صورتحال میں پاکستان کو یورپ سے حمایت ملنے کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ صرف ہندوستان میں مسلمانوں سے کئے گئے نا روا سلوک کی ہی ویڈیو سوشل میڈیا پر نہ دیکھی دنیا پاکستان کی بھی ایسی ویڈیوز دیکھ رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ معاشی تعاون کے لئے یورپی پارلیمنٹ سے بات کرے اور اہم ممالک سے براہ راست رابطہ کر کے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے مگر جب تک ہم دہشت گردی اور پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بالخصوص مذہبی آزادی کے معاملے کو بہتر نہیں کرتے ہمیں اس وقت تک سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سیاسی منظر نامہ بھی اتنا دھندلایا ہوا ہے کہ ہمارے دوست ممالک بھی ہمارے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل مطلع ابر آلود ہونے کی بجائے صاف شفاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ عمران خان اپنی حکومت سے معزولی کے بعد سے ان منصوبہ پر کار بند ہے کہ یا تو ان کو دوبارہ سے مسند نشین کروا دیا جائے یا وہ پاکستان میں ایسے حالات پیدا کردے کہ کوئی غیر آئینی اقدام ہو جاو اور دنیا بھی اس بات کو سمجھ رہی ہے کہ اگر پاکستان میں ابھی انتخابات کا انعقاد ہو جا? یا اپنے وقت پر منعقد ہو عمران خان ہارنے کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے حالات کو خراب کرنے پر تل جاو گے اور اس صورت حال سے بھی ملک کو محفوظ رکھنے کیلئے حکمت عملی کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

Back to top button