کرتارپورراہداری:پاکستان اوربھارت کیلئے کشادہ دل ودماغ سے آگے بڑھنے کا موقع
خصوصی مضمون ۔۔۔۔فرینک ایف اسلام
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ ماہ 9نومبر کو سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک دیو کی آخری آرام گاہ گوردوارہ دربارصاحب تک بھارتی سکھوں کو ویزہ فری انٹری دینے کیلئے کرتارپور راہداری کا افتتاح کیا تھا اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے برملا کہا کہ پاکستان یہ سمجھتاہے کہ خطہ کی خوشحالی کا راستہ اورہماری آنے والی نسلوں کی بہتر مستقبل کا راز امن میں پنہاں ہیں۔
اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان نہ صرف اپنے بارڈرز کھول رہا ہے بلکہ سکھ کمیونٹی کیلئے اپنی طرف سے کشادہ دلی کا مظاہرہ بھی کررہاہے۔ وزیراعظم پاکستان کے یہ الفاظ علامتی اورتاریخی اہمیت کے حامل ہیں اوراسکے ساتھ کرتارپور راہداری کی تقریب کا انعقاد عملی طورپر اس جانب ایک مثبت پیش رفت بھی ظاہر کرتی ہے۔
ماضی میں کرتارپورہ گرودوارہ 1947سے 2000ءتک بندرکھاگیاتھا اور نوے کی دہائی کے آخر میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اورسابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے مابین اسے کھولنے کیلئے بات چیت ہوئی تھی لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے سبب اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔ اس آئیڈیا پر گذشتہ برس کے آخر میں دوبارہ دونوں ممالک میں بات چیت ہوئی اورمختصر مدت میں اس دیرینہ خواب کو حقیقت کا روپ دینے سے متعلق اتفاق رائے پایاگیا۔
بظاہر یہ بات بڑی سادہ سی لگتی ہے کہ سکھ یاتری صبح بھارت سے پاکستان داخل ہوں اور اسی شام گوردوارہ کی یاترا کے بعدواپس لوٹ جائیں گے لیکن اسے اگر وسیع تناظر میں دیکھاجائے تو یہ خطہ کی ترقی و خوشحالی اورعشروں پرانے معاملات پر آگے بڑھنے کا بہترین موقع بھی ہے۔ بلاشبہ بعض حلقے اسے گیم چینجر قرار دے رہے ہیں اوریہ ایسا لگتا بھی ہے کیونکہ دونوں ممالک میں اس وقت تناﺅ کی کیفیت کے ساتھ ساتھ اس منصوبے سے متعلق خدشات بھی پائے جاتے ہیں مگر کرتار پور کی انہونی ان حالات میں بھی ہوگئی ہے۔
اس پیش رفت کے نتیجہ میں پوری دنیا کی نظریں کرتارپور راہداری کھولنے پر لگی ہوئی تھیں۔ جاپان نے اس پر کہا تھا کہ اس کے نتیجہ میں بارڈر کے اطراف لوگوں کی باہمی روابط کوفروغ حاصل ہوگا جبکہ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے دونوں ممالک کے اس جراتمندا نہ اقدام کی تعریف کی تھی۔ دونوں ممالک کے مضبوط تعلقات کی خواہش رکھنے والے ایک بھارتی امریکی کے طورپر میں مخلصانہ طورپر یہ امید کرسکتاہوں کہ کرتارپورراہداری پاکستان اوربھارت کے درمیان گیم چینجر اوربین الاقوامی توجہ اورتعریف کی باعث بنے گی۔ میرے خیال میں اب باقاعدہ ڈپلومیسی اورمذاکرات تعلقات کوآگے بڑھانے کیلئے ضروری ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کے لوگوں کے براہ راست روابط کیلئے اقدامات کے علاوہ میڈیا اوردانشوروں کے دوروں کا اہتمام کیاجانا چاہئے ، سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرامز اوربرصغیر کی فن وثقافت اورتاریخی ورثہ کے تناظرمیں باہمی سیاحت کے فروغ سے دونوں ممالک میں پائیدار امن اورخوشحالی کو یقینی بنایاجاسکتاہے۔ سماجی ، مذہبی اورمعاشی ہم آہنگی کی مشترکہ خواہش لازمی طورپر پاکستان ، بھارت اوراس خطہ کیلئے مفید ثابت ہوگی۔ میں شک وشبہ سے بالاتر ہوکر یہ کہ سکتاہوں کہ سکھوں کو رسائی دینے کا پاکستانی اقدام انفرادی اوراجتماعی طورپر نہ صرف مفید ہوگا بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف پہلا قدم بھی ثابت ہوگا۔
پاکستان کیلئے یہ غیر سرکاری سطح پر بھارت اوردنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ روابط کی راہ کھول سکتاہے۔سکھ کمیونٹی دنیا کے کئی ایک ترقی یافتہ ممالک میں اثرورسوخ رکھتی ہے اوردنیا بھرسے نہ صرف سکھ بلکہ ان کے متعلقین پاکستان میں قائم سکھوں کے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے پاکستان کے دورہ کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں ٹیکسلا اورشمالی علاقہ جات میں بدھ مت کے ماننے والوں کی بھی تاریخی عمارات موجودہیں اوران لوگوں کو وہاں پہنچنے کیلئے سہولیات اورآسان رسائی دے کر سیاحت کو فروغ دیاجاسکتاہے۔ اسی طرح پنجاب اورسندھ میں متعدد اہم اورتاریخی اہمیت کی عمارتیں اورکٹاس راج جیسے مندرہیں جہاں لاکھوں ہندو ا?نے کیلئے تیار ملیں گے۔
کرتارپورراہداری کے کھلنے کے مختصر عرصہ میں ہزاروں سکھ یاتری اس گوردوارہ کی یاترا کرچکے ہیں۔وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کھلے دل اورذہنی وقلبی سکون کیلئے کررہے ہیں۔ انہیں یہ موقع فراہم کرکے پاکستان اوربھارت نے باہمی امن اورخوشحالی کی منزل کو بھی قریب تر لانے کی طرف قدم اٹھایاہے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ بدترین تنازعات میں گرے پاکستان اوربھارت کے لئے یہ باہمی مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کا یہ بہترین موقع ہے۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ دونوں طرف امن کی خواہش کیلئے کرتارپور راہداری دل ودماغ کھولنے کا پہلا قدم ثابت ہوتی ہے کہ نہیں۔
Frank F Islam