کالم و مضامین

رمضان المبارک : خدمت خلق اورخوداحتسا بی کا مہینہ

فرینک ایف اسلام 

دنیا بھرمیں ایک ارب سے زائد مسلمان ان دنوں ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھ رہے ہیں اوران 30دنوں میں مسلم دنیا میں امن و یکجہتی، انسان دوستی اورخدمت خلق کا فقیدالمثال مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ دنیا بھر اوربالخصوص امریکہ میں آباد مسلم کمیونٹیز اس ماہ میں عقیدت ، سماجی خدمات کے جذبہ سے سرشار ہوکر فلاح وبہبود کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتی ہیں۔ رحمتوں اور برکتوں کے اس ماہ مقدس کی آمد پر میں تمام مسلم کمیونٹیز کو مبارک باد پیش کرتاہوں اوردعاء گو ہوں کہ یہ رمضان المبارک ان کیلئے امن، سلامتی، خوشیوں ، اچھی صحت اوریکجہتی کا پیغام لے کر آئے نیز یہ ماہ مبارک تمام مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول اورایمان کی پختگی کا سبب بنے ۔ ماہ  رمضان نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے جسے دین اسلام میں بابرکت ترین مہینہ کے طورپر منایا جاتاہے۔ اس ماہ میں روزے رکھے جاتے ہیں اوریہ دین اسلام میں قرآن مجید کی  اہمیت کا بھی  عکاس ہے۔ ماہ رمضان روحانی  اصلاح، شکرانے اورتجدید عہد کے تیس دنوں پر محیط ہوتا ہے ۔ یہ  ہمیں موقع فراہم کرتاہےکہ نہ صرف ہم ان دنوں میں اللہ تعالیٰ  کی رحمتیں سمیٹیں بلکہ یہ  ہمیں موقع فراہم کرتاہے کہ ہم غریب اورمستحق لوگوں کو مدد کرتے ہوئے ان کیلئے سحروافطار کا بندوبست کرکے بےشمار نیکیاں بھی حاصل کریں۔میں ذاتی  طورپر اسے ہمہ جہتی یعنی  360ڈگری بہتری کا ماڈل قرار دیتاہوں جس میں  ہمیں روحانی، سماجی، جذباتی اورشخصی طورپر اپنے آپ کو بہتربنانے کا موقع ملتاہے۔ ہم سحری سے غروب آفتاب تک روزہ کے دوران اللہ کی رضا کیلئے نہ صرف کھانے پینے کی اشیاء بلکہ ہرقسم کی برائی سے دوررہتے ہیں بلکہ اس کے معاشرتی سطح پر مثبت اوردوررس اثرات پڑتے ہیں  جس کی دنیا بھر میں  کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلمان کو روزہ افطار کرنے کی صورت میں جو خوشی ملتی ہے وہ بھی ناقابل بیان ہوتی ہے۔ذاتی طور پر ہمہ جہتی بہتری کے علاوہ روزے کے باعث سماجی  ومعاشرتی بہتری کے پہلو بھی بے شمارہیں۔یہ  امر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ پاکستانی ماہ صیام میں صدقہ ، خیرات اورسماجی  خدمات کے کاموں میں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک امریکہ اورکینیڈا سے زیادہ  خرچ کرتے ہیں اوران کے مخیر حضرات رمضان میں عام دنوں سے دگنا خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان سنٹر فار فلانتھراپی کی ایک سٹڈی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی لوگ سالانہ 240ارب روپے چیرٹی  کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں ، اس رپورٹ کے مطابق ملک کے 98فیصد لوگ اس کارخیر میں  حصہ ڈالتے ہیں اور جو نقد نہیں دے سکتے وہ اجناس، خدمات اوروقت کی صورت میں اس کارخیر میں شریک ہوتے ہیں۔ حدیث نبویﷺ ہے کہ صدقہ دو خواہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو۔ اس حدیث سے معاشرہ کے تمام طبقوں کی  حوصلہ افزائی  ہوتی ہےکہ وہ کار خیر کے کاموں میں شریک ہوں۔ سماجی  خدمت کا یہ  پہلو مسلم معاشرہ کا روشن ترین رخ  آشکار کرتاہے اورامریکی مسلم کمیونٹیز اوردنیا بھرکے مسلمان اس ماہ کے دوران چیرٹی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کا شریک ہوکر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو سمیٹتے ہیں۔

میرے خیال میں سماجی  خدمات کی پانچ مختلف جہتیں ہوتی ہیں جن میں سب سے اولین انفرادی بہتری کی کاوش ہے جس سے کوئی  بھی  مسلمان سب سے پہلے اپنا تذکیہ نفس کرتے ہوئے خود کو برائیوں سے دور اور اچھائیوں  کے قریب کرتاہے، دوسرے نمبر پر سماجی  یا آرگنائزیشنل سیٹ اپ میں اشتراک عمل ہے اورجو جہاں بھی ہے وہاں اسے بہتری کی  گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرنی  چاہئے۔ تیسرے سیاسی  ڈھانچے اورحکومتی سطح پر بہتر اورمثبت کردار ادا کرنے کی جدوجہد ہے۔چوتھے نمبر سماجی  اورمعاشی طورپر معاشرہ  کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا ہے اور آخر میں معاشرتی مساوات ، یکساں مواقع اورانصاف کیلئے کردار ادا کرنے کی  ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ میں مقیم مسلم کمیونٹیز کے ارکان ان سرگرمیوں میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ اپنا کردار بھی  انتہائی متحرک انداز میں ادا کررہے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطہ جو سبق میں اپنے دین سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ دین کا سب سے اہم تقاضہ انصاف کی فراہمی اورمعاشرہ کے تمام طبقوں کو انصاف مہیاء کرنے کی یقین دہانی ہے۔ یہ صرف بنی نو ع انسان تک ہی محدود نہیں بلکہ جانوروں کے علاوہ قدرتی  ماحول کا تحفظ بھی اس میں  شامل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ  سوال کرتاہے کہ میری مخلوق کا کون خیال رکھے گاجس پر پہاڑ اورفرشتے اسے مشکل امر قرار دیتے ہیں لیکن انسان اس کی ذمہ داری اپنے سر لیتاہے ، اس طرح اب یہ ہماری بنی نوع انسان کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام تر تخلیقات کی  حفاظت کرے۔ مجھے اپنے ایمان پر یقین کامل ہے اورمیرا ایمان مجھے مساوات، وقار، ہمدردی، عزت، تحمل، انصاف اور امن کا درس دیتاہے ۔ میراایمان مجھے پرسکون رکھتاہے اورمجھے پرامن رہنے کیلئے رہنمائی فراہم کرتاہے اور یہی خوبی مجھے دوسرے مذاہب کے لوگوں اورمختلف طبقات سے مل جل کرکام کرنے اورایک مضبوط معاشرہ کی تشکیل میں  مدد فراہم کرتی ہے۔

اس  موقع پر میں تمام مذاہب کے لوگوں سے یہ کہناچاہتاہوں کہ وہ دیگر مذاہب کے مساوات کے بنیادی فلسفہ کو اپنائیں نہ کہ جنت یا اپنے اپنے خدائوں جن کی وہ پوجا کرتے ہیں ۔ ہمیں اس کرہ ارض پر رہنے والے تمام بنی نوع انسان کو اکٹھے اورایک خاندان کی طرح زندگی گذارنے کا عمل سیکھنا ہوگا۔ہمیں ہمارے باہمی تنازعات کے تناظر میں نہیں دیکھاجانا چاہئے بلکہ ہمیں مل جل کر زندگی اکٹھے جینےوالے کے طورپر مثال بننی ہوگی۔ بلاشبہ ہم سب خدا کی  رضا کیلئے کام کررہے ہیں اور یہ خدا میرا یا آپ کا نہیں بلکہ ہم سب کا رب ہے جو پورے کرہ ارض پر بنی نوع انسانی کا پالنے والا ہے۔ بطورمسلمان ہمیں اس رمضان المبارک میں اپنے اس عہد کی تجدید کرنی چاہئے کہ ہم نہ صرف ہر لحاظ سے اپنے آپ کو بہتر انسان بنانے کی  جدوجہدکریں گے بلکہ سماجی بہبود کے کاموں میں  اپنا کردار بڑھانا چاہئے۔ ہمیں اس ماہ مبارک میں اپنی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی  لاتے ہوئے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے اردگرد لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو (آمین)

Related Articles

Back to top button