کالم و مضامین

پاکستانی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ

حساس ۔۔۔۔سعد اختر(پاکستان)

پاکستانی سیاست بہت سی مشکلات اور پیچیدگیوں میں گھری ہوئی ہے۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی اور کہیں دوستی۔ آج کی پاکستانی سیاست کا یہی حال اور یہی سوال ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ دیکھا جائے تو بظاہر پیپلز پارٹی کے سوا جس بھی جمہوری حکومت نے پاکستان پر حکومت کی ا±س پر ہمیشہ یہ الزام لگا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ ہے۔ نواز شریف ہوں، گجرات کے چودھری صاحبان یا اب عمران خان۔ ان میں سے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ سے بچا ہوا نہیں ہے۔ اب تازہ ترین لڑائی جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری ہے وہ نواز شریف کی ہے۔ سابق وزیراعظم اس وقت لندن میں بغرض علاج براجمان ہیں۔
پی ڈی ایم بنی اور گوجرانوالہ میں جلسہ ہوا تو انہوں نے لندن سے وڈیو لنک کے ذریعے پی ڈی ایم کے اس جلسہ عام سے خطاب کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے متعلق سخت زبان استعمال کی۔
اس کا ردعمل بھی ہوا اور مسلم لیگ (ن) کے مقامی قائدین اور کارکنوں میں ایک ہیجان کی کیفیت پائی گئی۔ پی ڈی ایم نے کراچی میں جلسہ کیا تو غیر متوقع طور پر اس جلسے سے نواز شریف نے خطاب نہیں کیا۔ لیکن جیسے ہی کوئٹہ والا جلسہ ہوا، نواز شریف ایک بار پھر ایسٹیبلشمنٹ پر برس پڑے۔ ناصرف اس تقریر میں جنرل باجوہ کا نام لیا بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی نہ بخشا۔ یہ ایسی سٹیٹمنٹ تھی جس نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی۔ فوج تو اس حو الے سے کچھ بول نہیں سکتی تھی۔ حکومت کو بولنا پڑا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے دفاع میں میدان میں ا±تر آئی۔
خو د مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنما سخت تذبذب کا شکار ہوئے۔ کچھ تو نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان کے دفاع میں بولے اور کچھ نالاں نظر آئے۔ خصوصاً بلوچستان میں تو مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آئی۔ سینئر لیگی رہنما عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ن لیگ سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور استعفیٰ دیکر نواز شریف سے اپنی راہیں ہمیشہ کیلئے ج±دا کر لیں۔ کتنے اور لوگ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیتے ہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ دیکر سیاست میں جو نئی راہ اپنائی ہے ا±سکی قیمت ن لیگ کو کس صورت ادا کرنی پڑیگی، اس کا ابھی تعین نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
ادھر مریم نواز بھی سیاست میں بہت متحرک ہیں اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مسلسل جارحانہ اننگ کھیل رہی ہیں۔ اپنے والد کی طرح اسٹیبلشمنٹ کیلئے ا±ن کارویہ بھی بہت سخت تھا۔ لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے ا±نکے رویے میں کافی تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ بی بی سی کی ایک خاتون صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے مریم نواز نے پہلی باریہ عندیہ دیا کہ ”فوج میری ہے اور ہم ا±سکے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں۔“ انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ اسٹیبلشمنٹ نے ا±نکے کچھ رہنماﺅں کے ساتھ رابطہ کیا ہے جس سے اس بات کو تقویت ملی ہے کہ دورنِ خانہ کچھ ہو رہا ہے۔ رابطے بھی ہوئے ہیں اور یہ رابطے ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ کیونکہ مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کیلئے یہ شرط عائد کی ہے کہ عمران خان اور ا±نکی حکومت کو ہر صورت گھر جانا ہو گا۔
اگرچہ آئی ایس پی آر نے مریم کے اس بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن نواز شریف اور مریم کے ترجمان سابق گورنر سندھ محمد زبیر کیمطابق مریم کی سٹیٹمنٹ میں صداقت ہے اور انہوں نے مریم نواز کے اس حالیہ انٹرویو کے متن کی تصدیق کر دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنیوالے دنوں اور ہفتوں میں آپ سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں دیکھیں گے۔مریم نواز کے اس حالیہ انٹرویو کے بعد حکومتی حلقوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ شیخ رشید، شبلی فراز، فواد چودھری اور فردوس عاشق اعوان کے حالیہ بیانات سے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت مریم کے اس بیان کو لیکر خاصی تشویش اور بے چینی میں مبتلا ہے۔پی ڈی ایم نے حکومت کیخلاف جو تحریک شروع کر رکھی ہے، ا±س کا اگلا جلسہ پشاور میں ہونیوالا ہے۔
پشاوراور ملتان کے بعد لاہور میں جلسے کا پروگرام ہے لیکن کرونا کے باعث شاید ان جلسوں کے انعقاد میں رکاوٹ پیدا ہو۔ حکومت نے کرونا ایس او پیز کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اب پی ڈی ایم کی جماعتیں کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو گرانے اور حکومت اپوزیشن کو نیچا دکھانے کیلئے سرگرم ہیں۔ اس کا نتیجہ خلفشار کی صورت میں ہی سامنے آئے گا جو ملک کیلئے کسی طرح بھی بہتر نہیں۔ حکومت کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاست میں اپوزیشن جماعتوں کیلئے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرے، ایسا نہ ہوا تو ہماری سیاست مزید تباہی کی طرف جا سکتی ہے اور کسی تیسری قوت کیلئے برسرِ اقتدار آنے کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

Saad Akhtar Column, Dec 6,20

Related Articles

Back to top button