کالم و مضامین

کووڈ۔19کے خاتمہ کیلئے عالمی سطح پر مربوط خدمت خلق کے نیٹ ورک کی ضرورت

خصوصی مضمون ۔۔۔فرینک ایف اسلام (واشنگٹن ڈی سی )

سیلابوں، طوفانوں اورزلزلوں سے پیدا شدہ بحرانوں سے نمٹنے کیلئے ہمیشہ عوامی سطح پر جذبہ خیرسگالی اورخدمت خلق کے عملی اظہار کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے اوراسی طرح کووڈ-19وباءکے سبب پوری دنیاجس ناقابل بیان بحران کی زد میں ہے، اس سے نمٹنے کیلئے بھی ایسی ہی خیرسگالی کی کہیں زیادہ ضرورت ان دنوں محسوس کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ اس عالمی وباءسے اب تک چالیس لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ تین لاکھ سے زائد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
اس انٹرنیشنل انٹرکونیکٹڈ فلانتھراپک نیٹ ورک(آئی آئی پی این)اس عالمی وباءکے مقابلہ میں مشترکہ اورفعال منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ عالمی وباءکو کنٹرول کرنے ، مستقبل میں کسی بھی وباءکو ایسی شکل اختیارکرنے سے روکنے اوردنیا بھر کی اقوام کو عالمی وباءسے نمٹنے اوراس سے پیداشدہ بحرانوں سے نکلنے میں مدد فراہم کی جاسکے۔
آئی آئی پی این کا مقصد بامقصد خدمت خلق ہونا چاہئے اورخیرات کے روایتی تصورسے ہٹ کرمربوط منصوبہ بندی پر بھی مشتمل ہونا چاہئے۔ خیرات یا امداد لوگوں کی ہنگامی ضروریات کو مدنظر رکھ دی جاتی ہے جبکہ بامقصد خدمت خلق کے ذریعہ ہم متاثرین کو درپیش سماجی اورمعاشی مسائل کے خاتمہ کیلئے ہر ممکن حد تک ان کے حالات کی بہتری کیلئے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔
کووڈ۔19کی عالمی وباءکے دوران دنیا بھرکے مختلف خطوں میں خدمت خلق کی تنظیمیں اپنے اپنے علاقوں میں قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہیں جن میں عالمی سطح پر نمایاں دکھائی دینے والی تنظیموں میں مارز انکارپوریٹڈ، دی چھب چیریٹیبل فاﺅنڈیشن اورسٹاوروس نیارکوس فاﺅنڈیشن شامل ہیں۔ انفرادی اوراجتماعی طورپر بھی لوگ اورادارے عالمی سطح پر کام کرنے والے ایسے اداروں کی معاونت میں مصروف ہیں اوران اداروں میں ریلیف انٹرنیشنل، یونیسف، انٹرنیشنل میڈیکل کیئر، ہیومینٹی اینڈ انکلوڑن اورآکسفام امریکہ شامل ہیں۔یہ رفاہی کام بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے کووڈ-19عالمی وباءکے عالمگیر سطح پر تباہ کن اثرات، تمام چھوٹی بڑی قوموں اورخطوں میں صحت، تعلیم اورمعاشی نظام کی اس وباءکے سبب ہونے والی تباہ حالی کے مقابلہ میں یہ چیریٹی انتہائی کم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آئی آئی پی این جیسے نیٹ ورک ایسی صورتحال میں انتہائی اہمیت اختیارکرجاتے ہیں۔ یہ ایسی بدتر صورتحال کابہترانداز میں مقابلہ کرنے کی پلاننگ میں مددگارہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق کووڈ-19کے سبب دنیا بھرمیں کساد بازاری 1930ءکی عالمی کساد بازاری کے بعد سب سے بڑا بحران بن سکتا ہے۔ یادر ہے کہ 1930ئمیں پیدا ہونے والا بحران ایک عشرہ سے زائد جاری رہا تھا جس میں امریکہ اوردنیا بھرمیں عالمی معیشتیں بیٹھ گئی تھیں اورکروڑوں لوگ معاشی بدحالی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔
آئی آئی پی این ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک باقاعدہ فریم ورک تیارکرسکتی ہے جس کی بنیاد منصوبہ بندی، ازسرنو احیاءاورمالی سپورٹ پر مبنی ہونی چاہئے تاکہ معاشی استحکا م کی بحالی کیلئے تمام فریقین کے مفادات اورانویسٹمنٹ کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھاجاسکے اورعالمی وباءکے اثرات سے اقوام عالم کو نکالنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی پر پیش رفت ممکن بنائی جاسکے۔ قبل ازیں اپنے ایک آرٹیکل میں میں یہ تجویز دے چکا ہوں کہ ہر قوم کو کورونا سے نجات کےلئے مختصرالمعیاد منصوبہ بندی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اپنے نظام صحت کی بہتری اورمعاشی ترقی کیلئے کام کرنا ہوگا۔
آئی آئی پی این ایسی قابل عمل تجاویز تیارکرکے دنیا بھر میں متاثرہ اقوام کو فراہم کرسکتے ہیں۔ اس معاونت کی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک اورامریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کو بہرحال ضرورت ہوگی جو اس عالمی وباءکا مقابلہ کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر متاثر ہورہے ہیں۔آئی آئی پی این کے ازسرنو احیاءکے منصوبوں سے کورونا وائرس سےبحالی اورنظام صحت میں بہتری ممکن بنائی جاسکے گی اوریہ معاشی نظام کی بہتری کیلئے بھی ممدومعاون ثابت ہونگے۔
اس میں کسی بھی قوم کی ترقی میں کلیدی اہمیت کے حامل نکات پر توجہ دینے اوراس پر معاشی پالیسیاں استوار کرکے آگے بڑھنے کی راہ ہموارکی جاسکے گی۔ مثال کے طورپر مستقبل میں کسی بھی خطرناک متعدی بیماری کےمقابلہ میں فوری اورہنگامی بنیادوں پر ویکسین کی تیاری ممکن بنائی جاسکے گی۔ آن لائن لرننگ پروگرامز کے ذریعہ فاصلاتی نظام تعلیم کو زیادہ فروغ دیاجاسکے گا۔ ٹیلی ہیلتھ اورمیڈیکل ٹریٹمنٹ ، کونسلنگ اورعلاج معالجہ کے تصور کو عملی شکل دی جاسکے گی۔
آئی آئی پی این کےاس پروگرام کے حتمی نقطعہ مالی معاونت کی فراہمی ہے جس کیلئے اس کے ارکان فنڈریزنگ پلان ترتیب دینے کے علاوہ دیگر مخیر افراد اورتنظیموں کے ساتھ اشتراک کرکے مختلف ممالک کو ترقیاتی ماڈلز پر عملدرآمد میں تعاون فراہم کرسکتے ہیں۔میرے نزدیک ، تاریخی طورپر ان ترقیاتی ماڈلز میں تعلیم، ثقافت، شہری سہولیات اورعالمی میل جول کے مواقع شامل ہونے چاہئیں۔ موجودہ عالمی بحران کے تناظرمیں کئی مزید شعبے ایسے ہیں جنہیں اس فہرست میں شامل کیاجاسکتاہے۔
آئی آئی پی این کا آئیڈیا اگرچہ ابھی دورکی کوڑی لانے کے برابر ہےلیکن اس پر عملی پیش رفت پہلے سے موجود بھی ہے۔ اس وقت23 ممالک میں تقریباً دوہزار سے زائد افراد، جوڑے اورخاندان اپنی آدھی سے زائد دولت اس مقصد کیلئے عطیہ کرنے کےلئے تیارہیں جن میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس، راک فیلیر فاﺅنڈیشن جیسے بڑے ڈونرز بھی شامل ہیں جو تعلیم وتربیت کے بہتر مواقع کی فراہمی، نظام صحت کی بہتری اورزیادہ معاشی مواقع کی فراہمی کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کی زندگی بدلنے کیلئے عملی طورپر برسرپیکارہیں۔
کووڈ۔19عالمی وباءدنیا بھرکی اقوام کیلئے صحت اورخاص طورپر معاشی لحاظ سے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے اوراگر صرف حکومت پاکستان کی ماہ اپریل کے اوائل میں جاری رپورٹ کو دیکھاجائے تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی معیشت کو 2.5ٹریلین روپے کا نقصان ہوچکا تھا۔
اس تناظر میں اقوام عالم کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے جو حیرت زدہ کردینے والا ہوگا۔ اس عظیم نقصان کو پورا کرنے کی بنیادی ذمہ داری تو حکومتوں پر عائد ہوگی اوراس ضمن میں وہ تنہاءنہیں ہونی چاہئیں اورانکی بامقصد معاونت کی نہ صرف ضرورت ہوگی بلکہ آئی آئی پی این کو اس معاونت میں ان کا اتحادی بننے کی ضرورت ہوگی۔ حال ہی میں ایک افطار کی تقریب میں اظہارخیال کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ پورے ماہ رمضان کے دوران ہم سحری سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں تاکہ اپنا ایمان تازہ کرسکیں اوراپنے اعمال کو یکسو کرکے معاشرے میں بہتری لاسکیں اوراس سے بڑھ کر ضرورتمندوں کے کام آسکیں۔
کورونا بحران کے اس تکلیف دہ وقت میں مالی حیثیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم سب کے ایمان کا یہ تقاضہ ہونا چاہئے کہ ہم سب سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں اورتجدید عہد کریں کیونکہ پاکستان کو بھی ایسی ایمان افروز قیادت کی ضرورت ہے اوراس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو بھی۔

Related Articles

Back to top button