پاکستانکالم و مضامین

افغانستان میں امن عمل کا آغاز

خصوصی مضمون۔۔۔فرینک ایف اسلام

بارہ ستمبر کو قطرکے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت کے نمائندوں وارطالبان قیادت کے درمیان افغانستان میں امن عمل کی بحالی کیلئے ہونے والے مذاکرات کا آغاز ہوا تو امریکی وزیرخارجہ نے اسے حقیقی اہمیت کی حامل پیش رفت قراردیاتھاجبکہ کونسل آف فارن ریلیشنز کے ماہر میکس بوٹ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہاتھاکہ ان مذاکرات سے کسی کو فوری پیش رفت کی توقع نہیں کرلینی چاہئے۔ ان کا کہناہے کہ دونوں فریقین میں اختلافات کی خلیج اتنی وسیع ہے اورنقطعہ نظر کا تضاد اس قدر زیادہ ہے کہ یہ خانہ جنگی کسی نہ کسی صورت 1978ءسے اب تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
فریقین کا ایک میز پر بیٹھنا ہی ایک پیش رفت ہے تو میرے خیال میں یہ ایسا نہیں ہے بلکہ اسے صرف ایک آغاز ہی قرار دیا جاسکتاہے۔29فروری کو امریکہ اورطالبان نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق دیگر شرائط کے علاوہ امریکہ کو افغانستان سے 14ماہ کےاندرمرحلہ وار اپنی فوجیں نکالنا ہیں۔ اس معاہدہ میں یہ بھی شامل تھا کہ طالبان کسی شدت پسند گروپ کی حمایت نہیں کریں گے جو امریکہ یا دنیا بھرمیں اس کے کسی بھی اتحادی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو۔ اس معاہدہ میں پانچ ہزار طابان قیدیوں اورایک ہزار افغان سکیورٹی اہلکاروں کی رہائی کی شرط بھی شامل تھی اورسب سے بڑھ کر بین الافغان جامع مذاکرات کے مارچ میں آغاز ہونا تھا۔یہ معاہدہ ہونے کے فوری بعد لکھے گئے اپنے کالم میں اس امر کی ضرورت پر میں زور دے چکاہوں کہ افغان امن معاہدہ پر چھائی بے یقینی کو ایک حقیقی امن عمل میں بدلنے کا موقع یقینی بنایا جاناچاہئے اوراب وہ وقت آگیا ہے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔
اس وقت اگرچہ فریقین مذاکرات کی میز پر بالمشافہ بیٹھے ہیں لیکن غیر یقینی کی کیفیت بہرحال اب بھی موجود ہے جس کے پس منظرمیں تلخ حقائق کا موجودہونا ہے اورانہیں مل بیٹھنے میں ایک کی بجائے کئی ماہ لگے ہیں۔اس تاخیر کا سبب بننے والے محرکات میں افغان حکومت کا امن معاہدہ میں شامل نہ کیاجانا بھی شامل تھا جبکہ طالبان کی طرف سے معاہدہ کے برعکس مارچ میں پرتشدد کارروائیوں میں ہوشربا اضافہ کردینا بھی تھا۔ بعدازاں پرتشدد کارروائیوں میں کمی آگئی تاہم قیدیوں کی رہائی اور دیگر متنازعہ امور جن میں افغانستان میں مستقبل کا سیاسی روڈ میپ ، انسانی حقوق اورطالبان کے القائدہ اوردیگر تشدد پسند گروپوں سے تعلقات شامل تھے ، کا طے کیاجانا باقی تھا۔
اگست کے اوائل مین افغان حکومت نے 400طالبان جنگجوﺅں کی رہائی کی منظوری دی جس کے بعد ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان قیادت کے پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے اسلام آباد میں اگست کے آخری ہفتہ میں مذاکرات ہوئے جس سے افغانستان کے جامع امن مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے بعض عوامل اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جن میں افغانستان کی معاشی ضروریات، افغانستان کے دیگر علاقائی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات، امریکی عوام کی افغانستا ن کی نہ ختم ہونے والی جنگ کے خاتمہ کی خواہش اورامریکی صدارتی انتخابات شامل ہیں۔ گذشتہ دو عشروں سے جاری اس جنگ نے افغانستان کی تجارت اور معیشت تباہ کررکھی ہے اوررواں سال اس کی حالت مزید خراب ہوئی ہے۔
عالمی بینک کی ماہ جولائی کی رپورٹ کے مطابق افغانستا میں سال 2020ءکے دوران کووڈ -19کی وجہ سے شرح نمو پانچ عشارئیہ پانچ سے سات عشارئیہ چارکے درمیان رہے گی جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوگا اورحکومتی ریونیو بھی بری طرح متاثر ہوسکتاہے۔ یہ تو یقیناً بری خبر ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ افغانستان تشد د میں کمی کیلئے اپنے علاقائی اتحادیوں چین اورپاکستان سے مل کر اقدامات کررہاہے جس سے آنے والے دنوں میں تجارت اورملکی ترقی کی صورتحال میں بہتری کا امکان بھی ہے۔ باہمی تعاون اوردہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ان تین ممالک کایک ایم او یو پر دستخط بھی کیے ہیں۔ اگریہ تین ممالک امن بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی یہ قربتیں افغانستان کو ملٹی بلین ڈالرز کے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کاحصہ بننے کا موقع فراہم کرسکتی ہیں جس سے پورا خطہ معاشی طورپر باہم رابطہ میں آسکتاہے۔
بھارت پہلے ہی افغانستان میں دو بلین ڈالرز امداد سے تعمیر نو کی سرگرمیوں کیلئے فراہم کررہاہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی سے بجلی کی فراہمی کا ایک بہت بڑا منصوبہ سنٹرل ایشیا ساﺅتھ ایشیا پاور پراجیکٹ (سی اے ایس اے 1000) اور چائنہ کرغیزستان، تاجکستان، افغانستان اورایران ریلوے لائن پر بھی کام ممکن بنایا جاسکتاہے۔ افغان امن عمل میں پیش رفت کا انحصار امریکی رائے عامہ پر بھی ہے اور ایک امریکی نان پرافٹ ا?رگنائزیشن یوریشیا گروپ فاﺅنڈیشن (ای آر ایف) کے حالیہ سروے کے مطابق امریکی عوام نے افغانستان سے امریکی فوج کے مجوزہ انخلاءکی بڑے پیمانہ پر حمایت کی ہے۔ای آر ایف کے مطابق امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں ریپبلکنز اورڈیموکریٹس میں چودہ ماہ میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاءکی بھرپور حمایت پائی جاتی ہے۔ امریکی صدارت کی دوڑ میں شامل دونوں امیدواربھی افغانستان میں امریکہ کے کردار کو کم از کم سطح پر رکھنے پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ کی طرف سے افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کی شدید مخالفت رکنے والے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار اورسابق نائب صدر جو بائیڈن کی خواہش ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار تک امریکی فوجی افغانستان میں آئی ایس آئی ایس اوردیگر شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائیوں کیلئے موجود رہنے چاہئیں۔ 14 ستمبر کے واشنگٹن پوسٹ کے اداریہ کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کا انحصار طالبان کی طرف سے امن کی عملی خواہش پر منحصر ہوگا۔افغانستان کے حالات امن کی طرف پیش رفت کی نشاندہی تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر ناکافی اقدامات کے سبب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔اس کیلئے مذاکرات کی میز پر صداقت، سمجھوتہ اورتعاون کی ضرورت ہوگی۔ اس کیلئے فریقین کو افغانستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اب تک خواتین کے حقوق، شہری آزادیوں اورجمہوری عمل کے حوالہ سے ہونے والی ترقی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔
طالبان اورافغان حکومت کے مذاکرات دو ایسے متحارب فریقین کے ایک میز پر یکجاءہونے کے مترادف ہیں جو فلسفہ اورمنطق کے حوالہ سے کسی طورپر بھی ایک دوسرے سے متفق دکھائی نہیں دیتے اوراب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ دونوں اس خلیج کو پاٹنے اورافغانستان کے شہریوں کو خوشحالی کے سفر کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں کہ نہیں۔

Frank F. Islam

Related Articles

Back to top button