خبریںپاکستان

جنرل باجوہ رہیں گے یا جائیں گے !

ایسے وقت پر کہ جب جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ رہ گئے ہیں، یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ جنرل باجوہ ریٹائر ہوں گے یا نہیں!!!

اسلام آباد (اردو نیوز ) اگرچہ مسلح افواج کے ترجمان ادارے کی جانب سے چند ماہ قبل دو ٹوک اور واضح الفاظ میں اعلان کر دیا گیا تھا کہ پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت جس میں تین سال کی توسیع دی گئی تھی ، مکمل ہونے کے بعد عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے تاہم اب ایسے وقت پر کہ جب جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ رہ گئے ہیں اور نئے آرمی چیف کی نامزدگی میں چھ سے سات ہفتوں کا وقت رہ گیا ہے، یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ جنرل باجوہ ریٹائر ہوں گے یا ان کی مدت ملازمت میں ایک بار پھر توسیع ہو گی!!!

یہ بحث پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی جانب سے دنیا ٹی وی کے کامران خان کو دئیے گئے انٹرویو کے بعد شروع ہوئی ۔
اینکر کامران خان کو پیر کی شب دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کا تقرر نئے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو کرنا چاہیے۔ اس پر اینکر نے سوال کیا کہ عام انتخابات میں تو 90 دن کا وقت لگ سکتا ہے اور اس دوران نومبر میں آرمی چیف ریٹائر ہو رہے ہیں تو کیا ا±نہیں ایکسٹینشن دے دینی چاہیے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ اس معاملے میں کوئی گنجائش نکالی جا سکتی ہے اور وکلا اور آئینی ماہرین اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

میڈیا کی جانب سے عمران خان کے مذکورہ موقف کے بعد عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع سے متعلق بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی بات نہیں کی تھی، توسیع کی بات فوری انتخابات کے ساتھ مشروط ہےبنی گالا میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران عمران خان نے کہا کہ حکومت فوری انتخابات کا اعلان کرے اور نئی حکومت کے انتخاب تک آرمی چیف کا تقرر مو¿خر کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کو مارچ تک لے جانے کے بالکل حق میں نہیں ہوں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل سوچے سمجھے منصوبے کے تحت متنازع بنا رہے ہیں کیوں کہ اس وقت اس موضوع پر بحث کرنا قبل از وقت ہے، آرمی چیف کی مدت میں ابھی ڈھائی ماہ کا وقت باقی ہے۔وزیر دفاع کے مطابق اس موضوع پر بات کرنا اس وقت ملک کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی دفاع کے ضامن ادارے کے سربراہ کو سیاست میں گھسیٹنا ادارے کے مفاد میں ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیانیے میں اچانک تبدیلی اِس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ وہ تمام قومی اور ریاستی اداروں کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے۔ انہیں احساس ہو رہا ہے کہ وہ غلطی پر ہیں۔

Related Articles

Back to top button