کالم و مضامین

بین الاقوامی امن و ہم آہنگی کے لیے مذہب کی طاقت کا استعمال

علامہ تحمیدجان ازہری

مذہب کے امن یا تنازع کے ساتھ تعلق کی نوعیت بہت پیچیدہ ہے۔جس طرح پوری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مذہب ہمیشہ امن، مصالحت اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک طاقتور وسیلہ رہا ہے اور اس میں بہترین کردار ادا کرتا kرہا ہے، ایسے ہی یہ امر بھی واضح ہے کہ کئی مواقع پر مذہب کو تشدد، عدم برداشت اور تنازعات کی مختلف شکلوں میں استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے عالمی سطح پریہ یقینی بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ مذہب کا دنیا میں غلط استعمال نہ کیا جائے ۔تاہم حالیہ برسوں کے دوران یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے مذہب اور مذہبی مسائل کو استعمال کیا جاتا ہے جوکہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ اس طرح کا عمل انسانوں کے درمیان خلیج میں اضافہ کررہا ہے اور بہت سے سماجی طبقات میں ایک دوسرے کے لیے منافرت کا احساس پیدا ہو رہا ہے ۔

ذیل میں اس مسئلے کے چند ایسے نکات زیربحث لائے جاتے ہیں جن سے یہ واضح ہوتاہے کہ کس طرح مذہب کا شعوری یا غیرشعوری طور پر استعمال کیا جاتاہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں:

مذہب کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کسی بھی جگہ رہنے والے ایک خطے کے افراد و طبقات میں نمو پانے والی اقدار، ان کے خیالات اور رویوں کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔مثال کے طور مسیحیت کے حامل مغربی معاشروں میں انفرادیت پسندی، مسابقت اور مفادات کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے، جبکہ اس کے برعکس ایشیائی معاشروں میں اجتماعیت پسندی، ہم آہنگی اور اخلاقیات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔

کسی بھی خطے کی اقدار اس علاقے کے منفرد ثقافتی اور تاریخی پس منظر کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ اختلافات بنیادی طور پہ غیرموزوں نہیں ہیں، بلکہ یہ انسانی تنوع اورتجربات کی رنگا رنگی کے آئینہ دار ہوتےہیں۔لیکن بعض مغربی ممالک میں ایشیائی باشندوں کو اس طرح دیکھا جاتا ہے جیسے وہ کم تر یا تہذیب کے خلاف ہوں۔ایشائی معاشروں پر مذہبی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ مغرب میں نمو پانے والا یہ احساس تاریخی و ثقافتی پس منظرسے کلی صرف نظر کرتے ہوئے اس تصور کا اظہار کرتا ہے کہ مغربی اقدار مطلق سچائی ہیں اور ان کا اطلاق دنیا کے تمام معاشروں پر ہونا چاہیے۔حالانکہ دوسرے معاشروں پر اپنی اقدار کو مسلط کرنے کی خواہش یا عملا اس کی کوشش کی حیثیت ثقافتی سامراجیت کی ہوتی ہے،جس کے تحت بیرونی طاقتیں دیگر اقوام کے داخلی معاملات پر اثرانداز ہونے اور ان میں مداخلت کی مرتکب ہوتی ہیں۔سردجنگ کے بعد یوگوسلاویہ کی تحلیل اس مسئلے میں ایک بڑی مثال ہے۔

وہاں بین المذہبی تنازعات نے جو مشکلات پیدا کیں،ان کا بری طرح استعمال کیا گیا اور اس کے سبب ایک خودمختار ملک میں بیرونی مداخلت کے دروازے کھلے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ یہ مسئلہ انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں، نسل کشی اور انسانی بحران کا باعث بنا۔

عصرحاضر میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان کشیدگی کا عنصر اور ایک دوسرے سے دوری ایک سنجیدہ امر ہے ،اور اس سے متعلقہ واقعات خبروں میں بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔9/11 کے بعد مغرب میں ایک طبقے کی جانب سے  اسلام کو ایک پرتشدد مذہب کے طور پہ پیش کیا گیا۔ وہاں اسلاموفوبیا ایک نمایاں مسئلہ ہے جس کے باعث مسلم اور غیرمسلم طبقات کے مابین تعلقات متأثر ہوئے ہیں اور باہمی سطح پر عدم اعتماد کی فضا پروان چڑھی ہے۔

اس مسئلے نہ ’ہم اور غیر‘ کی ذہنیت کو فروغ دیا ہے، گویا مذہبی بنیاد پر ایک دیوار کھڑی ہوگئی ہے۔مغرب میں مساجد کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جہاں مساجد کو توڑ پھوڑ یا اسی طرح کے کسی منافرت انگیز فعل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

سویڈن میں قرآن کریم کو جلانے کے حالیہ واقعات نے سیاسی مسائل کو مذہبی تنازعات کی شکل دیدی ہے جس کے سبب مختلف مذہبی طبقات اور ممالک کے مابین تعلقات شدید متأثر ہوئے ہیں۔اس طرح کے مسائل صرف مقامی حدود تک نہیں رہتے بلکہ اس کے بین الاقوامی سطح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اسلامو فوبیا کا سیاسی استعمال بھی مغرب میں ایک تشویشناک اور بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی دونوں ہی اپنے سیاسی فائدے کے لیے مسلم مخالف جذبات کا استعمال کرتے ہیں۔

پیو سنٹر(Pew Center)کے ایک سروے کے مطابق ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کم تعلیم یافتہ سخت گیر اناجیلی مسیحی مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ بیزاری کے جذبات رکھتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ امریکا میں 2016کے انتخابات کے دوران ٹرمپ نے مسلم منافرت کو ہوا دی تھی۔حتی کہ اس نے مسلمانوں کی نگرانی کرنے کے لیے ملک میں الگ سے ایک ڈیٹابیس یا واچ لسٹ بنانے کی دھمکی بھی دی تھی۔

بعض ممالک میں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ بغیر کسی ٹھوس اسباب یاشواہد کے ملک کے اندر یا باہرکے کسی ایک طبقے کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے لیے مذہبی مسائل کو اٹھایا جاتا ہے۔کچھ نام نہاد مذہبی اسکالرز یا رہنما کسی کے اشاروں پر اس کسی ایک طبق کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم قرار دینے کے لیے مذہبی بیانیے کا استعمال کرتے ہیں۔

ایک چینی باشندہ جو’ماجو‘کے نام سے معروف ہے اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر بھی سرگرم ہے،عالمی سیاسی کھلاڑیوں کاحمایت یافتہ ہے، اور مغرب میں مقیم ہے،خود کو ایک اسلامی اسکالر ظاہر کرتا ہے،اپنے گرد سماج مخالف افراد کو جمع کر رکھا ہےاور لیکچرز میں اپنے ہی ملک کے خلاف ایک فضا ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ بڑے ہی شاطرانہ انداز میں یہ سب کرتا ہے تاکہ سرمایہ کاروں کو اپنی طرف مائل کرسکے۔اس کی تقاریر نے مخلص مسلمانوں میں اضطراب پیدا کردیا ہے کہ کس طرح اس نے جھوٹے پراپیگنڈے کو اسلام کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح مذہبی علما بعض اوقات مذہبی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر ریاستوں کے مابین کی کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کو مکمل کرسکیں۔

مذہبی آزادی کے مسئلے کو سیاسی اور ذاتی اہداف کےلیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔مغرب کے ایک تاریخی کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں ایک فعال کردار ادا کرے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ دنیا میں کہیں بھی مذہب کا استحصالی اور ناجائز استعمال نہیں ہوگا۔

مذہب کے غلط استعمال یاقوموں کے درمیان مذہبی کارڈ کھیلے جانے کے سبب بین الاقوامی تعلقات پربھی شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جب مذہب کا اس طرح استحصال کیا جاتا ہے تو یہ قوموں اور طبقات کے درمیان اعتماد اور تعاون کو متأثرکرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button