کالم و مضامین

پاکستان اوراقوام عالم کو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف جنگ جیتنی ہوگی

فرینک ایف اسلام

اقوام متحدہ کے ادارہ یونائیٹڈ نیشنز انوائرنمنٹ پروگرام کے اشتراک سے پاکستان میں 5جون کو عالمی یوم ماحولیات منایاگیا۔ اس عالمی ایونٹ کی میزبانی کا شرف حاصل کرنا،جو گذشتہ چار دہائیوں سے دنیا بھر کے 100 سے زائد ممالک میں منعقد کیاجارہاہے ،  پاکستان کی ماحولیات دوست پالیسیوں اورجنگلات کی بحالی کیلئے کی جانے والے اقدامات کا اعتراف بھی تھا۔ یو این ڈی پی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کا کہناتھا کہ پاکستانی قیادت نے حقیقی معنوں میں ملک کے جنگلات کی بحالی کیلئے عملی اقدامات کیے ہیں اورہم عالمی یوم ماحولیات 2021ء کی پرجوش میزبانی اورعالمی سطح پر ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کے ازالہ اقوام عالم کو متحرک کرنے کی کوششوں کا حصہ بننے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ماحولیات کے وفاقی  وزیرملک امین اسلم بھی پاکستان کے اس قائدانہ کردار کے حوالہ سے پرجوش ہیں اوران کا کہنا ہے کہ پاکستان اس مقصد کیلئے نہ صرف پرعزم ہے بلکہ 10ارب درخت لگانے کے پروگرام (ٹی بی ٹی ٹی آئی) پر بھی تیزی سے عملدرآمد کررہاہے جس سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کی طرف نمایاں پیش رفت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھرمیں 10لاکھ ہیکٹرز پر مزید جنگلات قائم ہوسکیں گے۔ ان کا کہناتھا کہ عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی ہمارے لئے اعزاز ہے اورہم عالمی سطح پر ماحولیات کی بحالی کی  کوششوں میں برابر کےشریک اوراسکی  مکمل حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے ٹی بی ٹی ٹی آئی کا پروگرام 2014ء میں لانچ کیاتھا جس کا مقصد پہلے فیز میں 3.2بلین درخت لگانا اوران کی بحالی شامل تھی۔ حال ہی میں جاری ہونے والے اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملک بھرمیں 350ملین درخت اور814.6ملین پودے لگائے جاچکے ہیں۔جنگلات کی بحالی کا یہ پروگرام دیگر ممالک کیلئے قابل تقلید ہے ۔ سعودی عرب نے بھی  حال ہی میں گو گرین پروگرام کا آغاز کیاہے جو پاکستان کے ٹی بی ٹی ٹی آئی کے پروگرام سے مشابہ ہے ۔ سعودی ریاست ملک میں 10ارب درخت لگانے کا منصوبہ رکھتی ہے جبکہ  اسی منصوبہ کے تحت مشرق وسطیٰ کے پورے خطہ میں 50ارب درخت لگائے جانے ہیں۔سعودی عرب کا یہ منصوبہ پاکستان کے ٹی بی ٹی ٹی آئی کے پروگرام کے مشابہ نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی روکنے ، پانی کے ذخائر کی  بہتری اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کااخراج روکنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔ ٹی بی ٹی ٹی آئی پروگرام پاکستان میں جنگلات کی بحالی اورجنگلاتی حیات میں اضافہ کا سبب ہوگا  اور اس سے فضائی  آلودگی پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ سیلابی  افتاد میں کمی  اورگرین ہائوس گیسز کے اثرات پر قابو پایا جاسکے گا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ ساتھ ٹی بی ٹی ٹی آئی پروگرام 15لاکھ نئی جاب کا باعث بنے گا  اوراس کے علاوہ کمیونٹی پراجیکٹس ، علاقائی ترقی اورماحولیاتی سیاحت میں بھی  اضافہ ہوسکے گا۔ پاکستان ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کیلئے دیگر اقدامات بھی سنجیدگی  سے کررہاہے جس میں 2030ء تک توانائی پیدا کرنے والے 60فیصد پراجیکٹس کو ماحول دوست بنانا اور30فیصد گاڑیوں کو پٹرول سے بجلی پر شفٹ کرنا شامل ہے۔ ان تمام تر منصوبوں اوراقدامات کے باوجود اب بھی فضائی  آلودگی اور ماحولیاتی نظام کی بہتری کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس میں کوئلہ سے چلنے والے پاورپلانٹس سے کاربن کے اخراج کا مسئلہ ، ویسٹ مینجمنٹ کا باقاعدہ نظام قائم کرنے کے علاوہ پانی کے ذخائر کا قیام شامل  ہے۔مزید یہ کہ ملک بھرمیں  بغیر منصوبہ بندی کے اوربے ڈھنگے اندازمیں ہائوسنگ پراجیکٹس اوربڑھتی ہوئی غربت وافلاس بھی زندہ حقیقتیں ہیں۔غیرمعیاری پبلک ٹرانسپورٹ، پسماندہ اوردیہی علاقوںمیں لکڑی اورکوئلہ کابطورایندھن استعمال فضاء میں کاربن کے اخراج کے دو بڑے ذرائع ہیں ۔ موسم سرما میں پنجاب کے ہزاروں بھٹہ خشت سے زہریلی گیسوں کے اخراج سے سموگ سےصوبائی دارالحکومت لاہور سمیت صوبہ کے بڑے شہروں میں زندگی ہر سال بری طرح متاثر ہورہی ہے اورشہریوں کی صحت دائو پر لگ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی انحطاط کا ایک اور سبب جنگلات کی آگ پر قابو پانے کے نظام کا نہ ہونا اورزراعت کیلئے زہریلی ادویات کا بے جاء استعمال بھی ہے ۔ اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ یہ تمام فیکٹرز کئی جانداروں کی بقاء ، حیاتیاتی نظام اورجنگلات کے فوائد کو محدود کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔مجموعی طورپر پاکستان کے پاس ماحولیاتی نظام کی بحالی کیلئے جہاں کئی مواقع ہیں وہیں اس کو کئی ایک چیلنجز بھی درپیش ہیں جن کا وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو ادراک بھی ہے اوروہ ان کے حل کیلئے عملی کاوشیں کرتی دکھائی بھی  دیتی ہے۔ پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق دھویں سے پیدا ہونے والی آلودگی کے کنٹرول کیلئے حکومت نے زگ زیگ ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے اوراب تک 33فیصد بھٹہ خشت اس پر منتقل بھی ہوچکے ہیں۔ صرف لاہور شہر میں 359صنعتی یونٹس فضائی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں جن کی مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ انہیں ٹریٹمنٹ پلانٹس اوردیگر اقدامات اٹھانے کیلئے مائل کیاجارہاہے۔بدقسمتی سے پاکستان دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح ماحولیاتی نظام کے قیام اوراس میں حائل مسائل کے حل کیلئے نہ تو مناسب ذرائع رکھتاہے اورنہ ہی اسکے پاس اس ضمن میں جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ریسورسز اورٹیکنالوجی کی ضرورت درپیش ہوگی۔ یہی ایک نکتہ تھا جسے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران اجاگر کیااوراس امر کی نشاندہی کی کہ گلوبل وارمنگ  اورماحولیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے فیکٹرز میں پاکستان کا حصہ انتہائی کم ہے لیکن اس تباہی کا سبب بننے والے امیر ممالک پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ نہ صرف اس عالمی مسئلہ کے حل کیلئے فنڈز فراہم کریں بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیلئے بھی معاونت کریں۔ میری رائے میں وزیراعظم عمران خان نے بالکل صحیح نشاندہی کی ہے اورترقی یافتہ ممالک کو آگے بڑھ کر ترقی  پذیر ممالک کا بھرپورساتھ دینا چاہئے۔اس ضمن میں یہ ممالک متعدد اقدامات کرسکتے ہیں ۔اس ضمن ماحولیاتی نظام کی بحالی اورفضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئےاٹھائے جانے والے عملی اقدامات کیلئے گرین فنانسنگ کی جاسکتی ہے ۔ کاربن کا اخراج روکنے اورآلودگی کے خاتمہ ، صنعتی فضلے کو ٹھکانہ لگانے اور ماحول دوست انرجی پراجیکٹس کیلئے ٹیکنالوجی کی منتقلی ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہے ۔ماحولیاتی نظام کی بہتری کیلئے کام کرنے والے سرکاری افسران و اہلکاران، محکموں، کمیونٹیز اورسوشل سوسائٹی کے متحرک لوگوں کی تربیت اورانکی استعداد کاربڑھانے کی طرف توجہ دینا اشد ضروری ہوگا۔

ایک کہاوت ہے کہ جنگلات کو محض درختوں کے مجموعہ کے طورپر نہیں دیکھاجانا چاہئے ، 21ویں صدی میں جب ماحولیاتی تبدیلیوں کاتیزی سے بدلتا منظرنامہ درختوں کے ساتھ ساتھ جنگلات کے خاتمہ کی نشاندہی کررہاہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جنگلات نہیں تو یہ دنیا بھی ایسی نہیں ہوگی جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں۔یہی وجہ ہےکہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے ہم سب نے اجتماعی طورپر مل کر لڑنا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن بھی اس کا بھرپورادراک رکھتے ہیں اوریہی  وجہ ہے کہ انہوں نے اپریل کے اواخر میں واشنگٹن ڈی سی میں انٹرنیشنل ارتھ ڈے سمٹ کا انعقاد کرکے دنیا کے بڑے ممالک کو مل کراس سنگین مسئلہ کے حل کی طرف پیش رفت کرنے پرزوردیاتھا۔ یہ بہترین وقت کہ انفرادی اوراجتماعی طورپر درخت لگائے جائیں اور لوگوں میں اس سے متعلق شعور بیدار کیاجائے کہ درخت بنی نوع انسانیت کی کیاکیا خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ  اقدامات اورسوالات عالمی ماحولیاتی نظام کے قیام میں بنیادی  اہمیت کے حامل ہیں، کیا پاکستان، امریکہ اوراقوام عالم اس کیلئے تیارہیں؟

 

 

 

Related Articles

Back to top button