کالم و مضامیناوورسیز پاکستانیز

وقت کم ، مقابلہ سخت

آزادی صحافت ۔۔۔۔۔محسن ظہیر (نیویارک )

پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔اگرچہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا عندئیہ دیا گیا ہے تاہم ابھی تک کوئی حتمی اعلان یا اقدام نہیں کیا گیا کہ تحریک عدم کب ، کیسے اور کس کے خلاف (یعنی کہ پہلے عمران خان یا پہلے سپیکر ) لائے جائے گی ۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اپوزیشن کے سیاسی قائدین بالخصوص سابق صدر آصف زرداری، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان کی باہمی اور اہم حکومتی اتحادی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ہونیوالی ملاقاتیں معنی خیز ہیں ۔
اگرچہ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کے تلوں میں تیل نہیں ہے تاہم وہ مانیں یا نہ مانیں لیکن وہ کچھ گھبرائے ہوئے ضرور لگ رہے ہیں ۔پاکستانی سیاست کی اس بساط پر اپوزیشن ، حکومت اور حکومت کی اتحادی جماعتیں اپنے اپنے پتے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور ایک ”بھرپور اعتماد “ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ”بلف“(دھوکہ ) دینے کی کوشش میں ہیں ۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ سیاسی بساط پر کس کے پاس کون کون سے پتے ہیں اور اتحادیوں میں ”ٹرمپ کارڈ“ (فیصلہ کن کارڈ) چوہدری برادران ، ایم کیو ایم ، باپ پارٹی اور جہانگیر ترین گروپ میں سے کس کے پاس ہے ؟حکومت کی اتحادی جماعتیں بشمول جہانگیر ترین گروپ بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے اور ان کے (سیاسی ) نقش قدم سے بھی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اُن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا!!!
اس تمام تر صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کا روس کے دورے پر جانا کم از کم اس بات کا واضح اشارہ دیتا ہے کہ وہ وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ (فی الحال ) ان کی سیاسی ہوم گراو¿نڈ محفوظ ہے۔وزیر اعظم روس کے دورے سے جب واپس آئیں گے تو پاکستان میں موجود سیاسی عدم استحکام اور سیاسی بحران کی صورتحال کو وہاں پر پائیں گے کہ جہاں پر چھوڑ کر گئے تھے ۔
اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے قائدین کی باہمی اور حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتوں کی طرح ، عمران خان بھی آئندہ چند روز میں اہم ملاقاتیں کرنے جا رہے ہیں جنہیں ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ وہ ملاقاتیں ”گیم چینجر “ (سیاسی کھیل تبدیل کرنیوالی ) ملاقاتیں ثابت ہوں ۔ایسی ملاقاتوں میں عمران خان کی اپنے سابقہ دوست جہانگیر ترین سے ممکنہ ملاقاتوں کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا رہا ۔پاکستانی سیاسی پنڈت اس ملاقات کے حوالے سے بھی ”اگر مگر “ کے سابقے لاحقے سے اپنے تجزئیہ پیش کررہے ہیں ۔
قطع نظر اس کے کہ پاکستانی سیاست میں ”کچھ ہونیوالا ہے “ کا دعویٰ کتنا صحیح یا کتنا غلط ہے ؟یہ زمینی حقیقت ہے کہ آجکل یا کچھ مہینوں اور حالیہ کچھ دنوں سے سیاسی بساط پر بہت کچھ ہو رہا ہے ۔پاکستان کی اس جوڑ توڑ کی سیاست کو ہاتھی کے ان دانتوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور کھانے کے اور ۔
اپوزیشن اور اپوزیشن کی اتحادی جماعتیں ، حکومت اور حکومت کی اتحادی جماعتیں جو جو بھی چالیں چل رہے ہیں ، ان کا صحیح تجزئیہ ” wishful thinking“ یعنی کہ اپنی خواہشات پر مبنی سوچ کی بنیاد پر نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ اول تو اس صورت میں بیشتر اوقات بندہ غلط اندازے لگا رہا ہوتا ہے اور دوسرا جیسے وہ چاہ رہا ہوتا ہے ، جب ویسا نہیں ہوتا تو اسے زیادہ مایوسی ہوتی ہے۔
آنیوالے دنوں ، ہفتوں میں اپوزیشن اور اپوزیشن کی اتحادی جماعتیں ، حکومت اور حکومت کی اتحادی جماعتیں اپنی جو جو بھی چالیں چل رہی ہیں ، اگر اس میں انہیں اپنے مقاصد حاصل ہوتے نظر آئے تو اپنی چالوں یا کارڈز(پتوں) کو واضح کرنا شروع کر دیں گے بصورت دیگر کوئی نیا بیانیہ یا ایسا مطالبہ جو کہ ناقابل قبول ہوگا ، پیش کرکے ، یو ٹرن لے لیں گے ۔
مختصراً کہہ سکتے ہیں کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے ۔

Related Articles

Back to top button