اوورسیز پاکستانیز

سکھ کمیونٹی نے 15اگست 2021کو آزادی ریفرنڈم کا اعلان کر دیا

پنجاب کے سکھوںکی جانب سے قائم کردہ پنجاب ریفرنڈم کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے دنیا میں جاری صورتحال کے پیش نظر نومبر 2020میں ہونیوالا ریفرنڈم اب آئندہ سال بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر 15اگست 2021کو ہوگا

عالمی ریفرنڈم کا آغاز برطانیہ کے شہر لندن سے ہوگا جہاں بسنے والی سکھ کمیونٹی کے ارکان ریفرنڈم میں ووٹ ڈالیں گے اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے 20ممالک میں بھی بیک وقت ریفرنڈم ہوگا جس میں (بھارتی ) پنجاب سمیت دنیا بھر میں بسنے والی سکھ کمیونٹی کے لاکھوں ارکان ووٹ ڈالیں گے
اعلان ”پنجاب ریفرنڈم کمیشن “ کی جانب سے برطانیہ میں منعقدہ ایک ورچوئل (آن لائن) کانفرنس میں کیا گیا جسے امریکہ ، یور پ، برطانیہ اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے اہم پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر کیا گیا
کانفرنس کے ماڈریٹر کے فرائض برطانیہ میں موجود کنسلٹینسی فرم ” وائٹ ہاو¿س کنسلٹینسی “ کے چئیرمین کرس وائٹ ہاو¿س نے انجام دئیے ، ”پنجاب ریفرنڈم کمیشن “ کے چئیرمین مسٹر ڈین واٹرز کیبھی خصوصی شرکت ، ریفرنڈم کے طریقہ کار اور اہم امور کے بارے میں بتایا
15اگست کو بھارت اپنی آزادی کا دن مناتا ہے ،یہ سکھ قوم کی آزادی کا دن نہیں ۔1947میں سکھ قوم پر آزادی کا فیصلہ ان کی رائے جانے بغیر تھوپ دیا گیا ۔ سکھ قوم کو ہندو دھرم کا حصہ بنا دیا گیا ، پنجاب کا پانی چھین لیا گیا، پنجاب کے پنجابی بولنے والے علاقے تقسیم کر دئیے گئے ، اٹارنی گر پت ونت سنگھ پنوں
بھارت جب اپنی آزادی کا 75سال منائے گی ، اس وقت ”پنجاب ریفرنڈم کمیشن “ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں پنجاب کو آزاد کرنے کا ریفرنڈم میں ووٹ ڈالا جائیگا۔ یہ ووٹ20ممالک میں ڈالے جائیں گے، پنجاب میں بھی ووٹ ڈالے جائیں گے
ریفرنڈم میں ریفری کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ ہم ووٹس کا شمار کریں گے ۔اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ پراسیس شفاف ہو اور جو بھی شخص جو بھی ووٹ ڈالے ، اس کو شمار کیا جائے ۔’سٹیزنز اِن چارج‘ کے پال جیکب کا خطاب
جب عوام میں عدم تحفظ اور بے چینی کے احساس پیدا ہوتے ہیںتو وہ اپنے حقوق کی بات کرنا شروع کرتے ہیں اور جب ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر ان کی آواز ایک تحریک کی شکل میں سامنے آتی ہے ، صحافی برائن کا خطاب
جمہوریت کی روح یہی ہے کہ وہ ہارنے اور جیتنے والے کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ جمہوریت کے نتیجے میں اہم نتائج برامد ہوتے ہیں ۔ جمہوری عمل کا حصہ بننا ، ایک قابل فخر بات ہے۔ مجھے اس کمیشن کا رکن ہونے پر فخر ہے ۔برونو کاف مین (سوئٹزرلینڈ)
بریگزٹ اور سکاٹش ریفرنڈم سمیت بہت سے ریفرنڈم دیکھے ہیں اور ان کا بغور مشاہدہ کیا ہے ۔میرا یہ ماننا ہے کہ ریفرنڈم لوگوں کی رائے اور منشاءجاننے کا ایک موثرطریقہ ہے ۔ پروفیسر میٹ کووورٹاپ،جمہوریت ہی تنازعات کے پرامن حل کا بہترین طریقہ ہے،یانینا ویلپ

Video

https://youtu.be/yNn6OQBkq_Y

نیویارک (اردونیوز ) بھارتی پنجاب کے سکھوںکی جانب سے قائم کردہ پنجاب ریفرنڈم کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے دنیا میں جاری صورتحال کے پیش نظر نومبر 2020میں ہونیوالا ریفرنڈم اب آئندہ سال بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر 15اگست 2021کو ہوگا ۔ اس عالمی ریفرنڈم کا آغاز برطانیہ کے شہر لندن سے ہوگا جہاں بسنے والی سکھ کمیونٹی کے ارکان ریفرنڈم میں ووٹ ڈالیں گے اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے 20ممالک میں بھی بیک وقت ریفرنڈم ہوگا جس میں (بھارتی ) پنجاب سمیت دنیا بھر میں بسنے والی سکھ کمیونٹی کے لاکھوں ارکان ووٹ ڈالیں گے ۔ یہ اعلان ”پنجاب ریفرنڈم کمیشن “ کی جانب سے برطانیہ میں منعقدہ ایک ورچوئل (آن لائن) کانفرنس میں کیا گیا جسے امریکہ ، یور پ، برطانیہ اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے اہم پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر کیا گیا ۔نومبر 2020میں ریفرنڈم کے انعقاد کے التواءاور 15اگست 2021کو ریفرنڈم کے عالمی انعقاد کا اعلا ن سکھ قوم کی ایک اہم و نمائندہ عالمی تنظیم ”سکھ فار جسٹس “ کے جنرل کونسل اٹارنی گر پت ونت سنگھ پنوں نے تنظیم کی ایماءپر کیا ۔
لندن میں منعقدہ اس تقریب میں ماڈریٹر کے فرائض برطانیہ میں موجود کنسلٹینسی فرم ” وائٹ ہاو¿س کنسلٹینسی “ کے چئیرمین کرس وائٹ ہاو¿س نے کی جبکہ تقریب میں ”پنجاب ریفرنڈم کمیشن “ جو کہ ریفرنڈم کے انعقاد میں اپنا کردار اداکر ے گا ، کے چئیرمین مسٹر ڈین واٹرز نے بھی خصوصی شرکت کی اور ریفرنڈم کے طریقہ کار اور اہم امور کے بارے میں بتایا ۔
تقریب میں برطانوی رکن پارلیمنٹ سمیت دنیا بھر سے اہم سکھ قائدین و اہم عالمی شخصیات و سکالر نے بھی شرکت کی اور پنجاب ریفرنڈم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
”سکھ فار جسٹس “ کے جنرل کونسل اٹارنی گر پت ونت سنگھ پنوں کا کہنا تھا کہ15اگست کو بھارت اپنی آزادی کا دن مناتا ہے ،یہ سکھ قوم کی آزادی کا دن نہیں ۔1947میں سکھ قوم پر آزادی کا فیصلہ ان کی رائے جانے بغیر تھوپ دیا گیا ۔ سکھ قوم کو ہندو دھرم کا حصہ بنا دیا گیا ، پنجاب کا پانی چھین لیا گیا، پنجاب کے پنجابی بولنے والے علاقے تقسیم کر دئیے گئے ۔ان حالات میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے حقوق کی بات کی ۔ جب حقوق کی بات کی گئی تو ہمارے اکال دل پر حملہ کر دیا گیا ، سکھ قوم کی نسل کشی شروع کر دی گئی۔ ان حالات کو پیش نظرپنجاب کے لوگ باہر آگئے ہیں ۔ سکھ قوم یاد رکھے کہ حقوق دئیے نہیں جائیں گے ، ہمیں اپنے حقوق لینے ہوں گے ۔بھارت جب اپنی آزادی کا 75سال منائے گی ، اس وقت ”پنجاب ریفرنڈم کمیشن “ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں پنجاب کو آزاد کرنے کا ریفرنڈم میں ووٹ ڈالا جائیگا۔ یہ ووٹ20ممالک میں ڈالے جائیں گے، پنجاب میں بھی ووٹ ڈالے جائیں گے ۔

اٹارنی گر پت ونت سنگھ پنوں نے کہا کہ سکھ قوم ایک پر امن اور جمہوریت پسند کمیونٹی ہے ۔ ہم ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کے بعد ہم اقوام متحدہ سے رجوع کریں گے اور اپنے حق استصواب رائے اور آزادی کے سلسلے میں اپنے عالمی حقوق کے حصول کےلئے اپنا ہر ممکن کردار اد ا کریں گے ۔
اٹارنی گر پت ونت سنگھ پنوں نے کہا کہ انڈین گورنمنٹ کی جانب سے ہمارے یوٹیوب چینل کو ”لائیو“ پریس کانفرنس کے دوران بلاک کر دیا گیا۔یہی مودی کے انڈیا کا ایک چہرہ ہے ۔ ایسا چہرہ پہلی بار بے نقاب نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب ریفرنڈ کمیشن کے پانچ ارکان وہ ہیں کہ جنہوں نے دوسرے ممالک میں نہ صرف ریفرنڈم کروایا بلکہ ان کا آزادی بھی دلوائی ہے ۔
کینیڈا سے سکھ فار جسٹس کے ڈائریکٹر جیتندر سنگھ گریوال نے کہا کہ سکھ قوم اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف میں بیان کردہ ”پیپل“( People)کی عالمی تعریف پر پورا اترتے ہیں ۔ انڈین آئین میں ابھی تک سکھ از م کو ایک مذہب کے طور پر نہیں مانا گیا، ہماری زبان پنجابی کو نہیں مانا جاتا۔انڈیا میں ہمارے پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، ہماری قدرتی وسائل کو ایسے تقسیم کیا گیا کہ سکھ قوم کو ان سے محروم کر دیا گیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ 1970میں سکھ قوم نے کہا کہ ہم سے کئے جانیوالے وعدے پورے کرو، انڈین نے وعدے پورے کرنے کی بجائے ، سکھ قوم کے خلاف کاروائی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ہمارے گوردواروں پر کاروائی کی گئی اور فوجی کاروائی سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔ گولڈن ٹمپل پر حملہ کیا گیاا ور ہزاروں سکھوںکو انڈیا بھر میں شہید کر دیا گیا ۔ ان حالات کے پیش نظر ہم نے خارجی استصواب رائے کا حق استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انڈین حکومت کی جانب سے سکھ کمیونٹی کی آواز بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ سوشل میڈیا اکاو¿نٹس بند کئے جا رہے ہیں ۔وٹس ایپ گروپوں کو بلاک کیا جا رہا ہے اور ان گروپس میں اپنی آراءکا اظہار کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے ۔اس لئے وقت آگیاہے کہ انڈین آمریت کے خلاف کھڑا ہوا جائے ، اپنے حقوق کو یقینی بنایا جائے ، اس کا واحد حل یہ ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے آواز بلند کی جائے ۔
پنجاب ریفرنڈم کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ڈین واٹرس نے کہا کہ جب ریفرنڈم کے سلسلے میں ووٹنگ ہو گی ، تو ہم اس کو مانیٹر کریں گے ۔انہوںنے ووٹنگ کے دوران کمیشن کے طریقہ کار کو واضح کیاا ور کہا کہ کمیشن کے مشاہدے میں جو بھی اعدادو شمار اور حقائق آئیں گے ، وہ بیان کرے گا۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جمہوریت اور ریفرنڈم کامل نہیں ہو تا ۔اہم بات یہ ہے کہ اس بات پر غور کریں کہ ریفرنڈم کیوں ہو رہا ہے ۔ اپنی آراءکا موثرطریقے سے اظہار کریں ۔
’سٹیزنز اِن چارج‘ کے پال جیکب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس ریفرنڈم میں ریفری کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ ہم ووٹس کا شمار کریں گے ۔اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ پراسیس شفاف ہو اور جو بھی شخص جو بھی ووٹ ڈالے ، اس کو شمار کیا جائے ۔
پنجاب ریفرنڈم کے کوارڈی نیٹردوپندر جیت سنگھ نے کانفرنس میں انگریزی میں خطاب کرنے والی اہم عالمی شخصیات کے خطاب کا پنجابی میں ترجمہ پیش کیا ۔ انہوںنے پنجاب ریفرنڈم کمیشن اور آئندہ سال ہونیوالے ریفرنڈم کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ سکھوں نے ہمیشہ پنجاب کے ساتھ رہنا چاہا۔ ہم چاہتے تھے کہ ہم بھارت میں داخلی حقوق کو یقینی بنائیں لیکن بھارت نے سکھوں کی نسل کشی کرکے سکھ قوم کو مجبور کر دیا کہ سکھ اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ سکھ قوم، ریفرنڈم میں حصہ لے اور اپنی آزادی کو یقینی بنائیں ۔ریفرنڈم سے پہلے ووٹ رجسٹریشن کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہم دنیا بھر میں بسنے والے سکھ ارکان سے کہیں گے کہ وہ اپنے ووٹ کو رجسٹرڈ کروائیں تاکہ ریفرنڈم میں حصہ لے سکیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسلہ کا حل آزادی ہے ۔
کینیڈا سے صحافی برائن میکلیگن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر خود مختاری حاصل ہو تو dignityحاصل ہو تی ہے۔ اقتدار ، عوام کوتو شفاف دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ خود کو شفاف ظاہر نہیں کرنا چاہتا ۔ جہاں ایسے حالات ہوں ، وہاں عوام میں عدم تحفظ اور بے چینی کے احساس پیدا ہوتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے حقوق کی بات کرنا شروع کرتے ہیں اور جب ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر ان کی آواز ایک تحریک کی شکل میں سامنے آتی ہے ۔
مسٹربرائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں سکھ ہی نہیں بلکہ دیگر ایسی اقوام بھی ہیں کہ جن کے حقوق غضب کر رکھے ہیں اور انہیں مسلسل ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ریفرنڈم ایک پرامن طریقہ ہے کہ آپ اپنی آواز کو بلند کریں ۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ خالد محمود نے کہاکہ ہمیں، دیگر کمیونٹیز کو بھی اپنے مسائل سے آگاہ کرنا چاہئیے ۔ سکھ ایک ”ریس “(نسل)ہے ، اس لئے وہ اپنی الگ ریاست رکھنے کا حق رکھتے ہیں ۔ سکھ قوم کو ایک عرصے سے تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سکھ قوم پر ظلم و زیادتی ، ان کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل پر حملہ اور کاروائی بڑی مثالیں ہیں ۔ ہم سکھ قوم کے ارکان پر بھارتی حکومت کی جانب سے کی جانیوالی کاروائیاں روز سنتے اور دیکھتے ہیں ۔سکھ کمیونٹی کے مقدس مقامات ، پاکستان میں ہیں ۔ بھارتی حکومت ان مقامات کے دورے کے سلسلے میں ایسی پالیسیاں بناتی ہے کہ جن سے سکھ کمیونٹی مطمئن نہیں ۔ اس لئے انڈین گورنمنٹ کے کنٹرول کو مذکورہ پالیسیوں سے آزاد کروانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب بنیادی طور پر ایک زرعی علاقہ ہے ۔ زراعت کے شعبے میں سکھ قوم کو بہت سے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ سکھ کمیونٹی کی ریفرنڈم کی تحریک ایک پر امن تحریک ہے ۔میں سکھ کمیونٹی سے کہوں گاکہ وہ منتخب قائدین کو، اپنی تحریک اور مسائل سے آگاہ کریں ۔ جتنا آگاہی پیدا ہو گی ، اتنا ہی منتخب قائدین دنیا کے مختلف ایوانوں میں ان کے حق میں بات کریں گے ۔بھارت میں’ہندواتا‘ ذہنیب رکھنے والے حکمران اپنی اجارہ داری چاہتے ہیں اور کسی کو حقوق دینے پر یقین نہیں رکھتے ۔
برونو کاف مین (سوئٹزرلینڈ) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی روح یہی ہے کہ وہ ہارنے اور جیتنے والے کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ جمہوریت کے نتیجے میں اہم نتائج برامد ہوتے ہیں ۔ جمہوری عمل کا حصہ بننا ، ایک قابل فخر بات ہے۔ مجھے اس کمیشن کا رکن ہونے پر فخر ہے ۔
کانوینٹ یونیورسٹی کے پروفیسر میٹ کووورٹاپ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ اور سکاٹش ریفرنڈم سمیت بہت سے ریفرنڈم دیکھے ہیں اور ان کا بغور مشاہدہ کیا ہے ۔میرا یہ ماننا ہے کہ ریفرنڈم لوگوں کی رائے اور منشاءجاننے کا ایک موثرطریقہ ہے ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں ۔ آپس میں لڑنے کی بجائے ، بات چیت سے مسائل کا حل بہترین طریقہ ہے ۔گریجویٹ انسٹیٹیویٹ جنیوا کی یانینا ویلپ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت ہی تنازعات کے پرامن حل کا بہترین طریقہ ہے ۔

Sikh for Justice , Punjab Referandum

 

Related Articles

Back to top button