اوورسیز پاکستانیز

ہر سال سات لاکھ کام کےلئے بیرون ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 40ہزار رہ گئی ہے ، وزیر اعظم عمران خان ایکشن لیں، چیف جسٹس نوٹس لیں

پاکستان سے ہر سال چھ سے سات لاکھ پاکستانی باہر جاتے تھے جن کی تعداد اب کم ہو گئی ہے ، چار ہزار سے زائد اوورسیز ایمپلائمنٹ ایجنسیاں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہیں، کوئی کام نہیں

مستبل کی تلاش میں سعودی عرب سمیت مڈل ایسٹ جانے والے لاکھوں پاکستانیوں کا مستقبل مخدوش ہے ،صرف سعودی عرب سے گیارہ لاکھ پاکستانی بے روزگار ہو کر واپس آئے ہیں
جو لوگ بیرون ممالک سے بے روزگار ہوکر واپس آتے ہیں، حکومت کے پاس ان کو ایڈجسٹ کرنے کا کوئی پلان نہیں ، سفارتخانوں میں بیشتر سفارشی لیبر اتاشی کسی کی مدد نہیں کرتے
پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے سینئر رہنما ، عطاش انٹر نیشنل اوورسیز ایمپلائمنٹ ایجنسی کے سربراہ سردار اکمل سے خصوصی بات چیت ، سردار عاشق خان کا استقبالیہ

نیویارک (اردو نیوز ) پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے سینئر رہنما ، عطاش انٹر نیشنل اوورسیز ایمپلائمنٹ ایجنسی کے سربراہ سردار اکمل نے کہا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں سالہا سال سے پاکستانیوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوانے والے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی حالت زار ، ہزاروں کی تعداد میں سعودی عرب سمیت دنیا بھر سے واپس آنے والے اوورسیز ورکرز کی جانب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور وزیر اعظم میاں عمران خان فوری توجہ دیں ۔ یہ بات انہوں نے اردو نیوز یو ایس اے کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو اور اپنے قریبی عزیز سردار عاشق خان کی جانب سے دئیے گئے ظہرانے کے موقع پر بات چیت کے دوران کہی ۔اس موقع پر سید خلیل شاہ بخاری ، چوہدری ظہور اختر ، کوثر کاظمی، ظفر مارگرے اورسردار عادل خان بھی موجو دتھے ۔
سردار اکمل خان ، پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کی راولپنڈی ، اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں نمائندگی اور قیادت کررہے ہیں ۔ اس ایسوسی ایشن کو قائم ہوئے 22سال ہو گئے ہیںاور سردار اکمل کا کہنا ہے کہ ان کا گروپ گذشتہ 18سالوں سے ایسوسی ایشن کی قیادت کررہا ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اکمل خان نے کہا کہ پاکستان سے ہر سال چھ سے سات لاکھ پاکستانی کام کے لئے باہر جاتے ہیں ۔ ان میں چار سے ساڑھے چار لاکھ سعودی عرب جاتے ہیں باقی ماندہ دوبئی، کویت ، مسقط ، اومان سمیت دیگر ممالک میں جاتے ہیں ۔سال 2014کے بعد بیرو ن ممالک کام کے لئے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بڑی تعداد میں کمی واقع ہوئی ۔زیادہ تر لوگ جو کہ سعودی عرب جاتے تھے، ان کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہو گئی کیونکہ سعودی عرب نے مقامی طور پر ٹیکس لگا دئیے اور جنگی صورتحال کی وجہ سے ان کے درون خانہ اپنے روزگار اور معاش کے حالات بدل رہے ہیں ۔سعودی عرب سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں سمیت اوورسیز ورکرز کو نکالا گیا ۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ پاکستان سے صرف چالیس ہزار کے قریب لوگ سالانہ بیرون ممالک کام کرنے جاتے ہیں ۔
سردار اکمل خان نے کہا کہ گورنمنٹ کو اوورسیز ایمپلائمنٹ سیکٹر پر خصوصی توجہ دینی چاہئیے ۔ اس شعبے کی وجہ سے نہ صرف پاکستانیوں کو روزگار اور معاش حاصل ہوتا تھا بلکہ ایک ایک اوورسیز پاکستانی اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کی کفالت کے علاوہ پاکستان کو کروڑوں ڈالرز کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان اور چیف جسٹس اس شعبے کی جانب فوری توجہ دیں ۔
ا س سوال کہ گورنمنٹ کیا اقدام کر سکتی ہے ؟کے جواب میں سردار اکمل نے کہا کہ حکومت بیرون ممالک جانے والے اوورسیز ورکرز کو تحفظ فراہم کرے ۔ وہ ضروری کاغذی و قانونی کاروائی کرکے بیرون ممالک جاتے ہیں ۔ بیرون ممالک میں کفیل ان کے ساتھ کوئی زیادتی کرے یا انہیں تنخوانہ نہ دے یا پوری تنخواہ نہ دے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسے تحفظ اور قانونی امداد فراہم کرے ۔ اوورسیز میں مقیم کام کرنے والے کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ قانونی راستے اختیار کرے لیکن قانونی مدد اس کا حق اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ بدقسمتی سے بیشتر ممالک میں سفارت خانے کا عملہ بالخصوص لیبر اتاشی ان غریب ورکرز کی جانب توجہ نہیں دیتے جن کی وجہ سے وہ مشکلات در مشکلات کا شکار ہو تے رہتے ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اکمل خان نے کہا کہ بیرون ممالک سے جب کوئی کمپنی کسی کو ملازمت دیتی ہے تو وہ پہلے نوے دن کے اندر اندر اس کے کام اور صلاحیت کے بارے میں کوئی سوال اٹھا سکتی ہے ۔ اس کے بعد ورکر کو پورا تحفظ حاصل ہوتا ہے ۔ نوے دن کے بعد اگر کوئی مالک یا کمپنی کسی ملازم کو نوکری سے نکالتی ہے تو اسے قانون کے تحت اسے دو سال کی پوری تنخواہ ادا کرنا ہوتی ہے ۔
سردار اکمل خان نے کہا کہ سعودی عرب میں لیبر لاءموجود ہیں عدالتوں میں جائیں تو انصاف ملتا ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ غریب مزدور کو تو کام کے علاوہ ان ممالک میں راستے معلوم نہیں ہوتے اور پتہ نہیں ہوتا کہ کیسے عدالت میں جائے ۔ وہاں سفارتخانوں اور ان میں کام کرنے والے لیبر اتاشیوں کا کام ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی کریں ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چار سے پانچ ہزار ایمپلائمنٹ ایجنسیاں ہیں ۔اب یہ اللہ کے آسرے پر کام کررہی ہیں ۔ میں اپنی مثال دوں گا ۔ میری اس سال کی پروگریس یہ ہے کہ میں نے صرف آٹھ افراد کو روزگار کے حوالے سے بیرون ممالک بھجوایا ۔ہر ایجنسی کی تین لاکھ روپے سیکورٹی حکومت کے پاس ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مڈل ایسٹ میں تقریباً پچاس لاکھ پاکستانی ہیں ،سعودی عرب میں تیس لاکھ سے زائد ہیں ۔ان میں گذشتہ ڈیڑھ سالوں میں گیارہ لاکھ پاکستانی کام نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگئے ہیں ۔بیس لاکھ ابھی بھی وہاں پر کام کررہے ہیں ۔جو لوگ بیرون ممالک سے بے روزگار ہو کر واپس آئے ہیں، ان کو ایڈجسٹ کرنے یا ان کی مدد کرنے کا حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں ۔ان لوگوں کو مستقبل کی تلاش میں مستقبل تباہ ہو گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اوورسیز کمیونٹی سے حکومتیں تمام فائدے تو لیتی ہیں لیکن انہیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کر تیں ۔بیشتر لیبر اتاشیوں کو بیرون ممالک میں کام کرنے والے لوگوں ، مزدوروں کی کوئی پرواہ نہیں سفارشی لوگ بھرتی ہوئے ہیں ۔
سردار اکمل نے کہا کہ چیف جسٹس جہاں بڑے بڑے کیسوں میں از خود نوٹس لیتے ہیں ، ان غریب اوورسیز پاکستانیوں کے کیس کا بھی نوٹس لیں ۔

Related Articles

Back to top button